کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 690
بطور علامت نظر آئے گا۔یہ تبرج ہے اور اسباب فتنہ میں ہے لہذا جائز نہیں۔[1] (محمد بن صالح عثیمین) سوال:موقع بموقع عورتوں کے بالوں کے طرح طرح کے اسٹائل نظر آتے ہیں،اور پھر دوسری عورتیں بھی ان کی نقالی شروع کر دیتی ہیں۔کہیں تو یہ بالکل مردوں کی طرح ہوتے ہیں یا طرح طرح سے رنگے ہوئے ہوتے ہیں،یا انہیں بکھیر بکھیر کر رکھتی ہیں،اور ان اسٹائلوں کے لیے وہ بیوٹی پارلروں میں جاتی ہیں اور اس کے عوض میں وہ سو سو یا ہزار ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ دے آتی ہیں؟ جواب:"بال" عورت کا حسن و جمال ہیں اور اس سے مطلوب ہے کہ وہ انہیں بنائے سنوارے اور جائز حد تک ان کو خوبصورت بنائے،اور اس سے یہ بھی مطالبہ ہے کہ وہ اپنے بال بڑھائے مگر غیر محرموں سے چھپائے بھی۔بالخصوص نماز میں حکم ہے کہ: "لَا يَقْبَلُ اللّٰهُ صَلَاةَ حَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ" "اللہ تعالیٰ کسی جواب عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں کرتا ہے۔"[2] مگر انہیں کاٹنا یا مردوں کی حجامت کے مشابہ بنانا یا ان کی کیفیت کا بگاڑ دینا یا بلا ضرورت رنگنا،یہ باتیں جائز نہیں ہیں۔ہاں اگر بال سفید ہو جائیں تو ضرور رنگنا چاہیے۔ مگر کالے نہ کیے جائیں۔سفید بالوں کو رنگنا شرعا مطلوب ہے۔مگر ان کے بنانے سنوارنے میں حد سے مبالغہ کرنا اور بیوٹی پارلروں میں جانا کسی طرح درست نہیں
[1] راقم مترجم عرض کرتا ہے کہ گدی کے پاس گردن پر جوڑا بنا لینا عام حالت میں تو جائز ہے مگر نماز کی حالت میں جائز نہیں ہے،خواہ وہ مرد بنائے یاعورت،جیسے کہ فضیلۃالشیخ نے گھر سے باہر بازار وغیرہ میں اسے منع فرمایا ہے۔سنن ابی داود،کتاب الصلاۃ،باب الرجل یصلی عاقصاشعرہ،حدیث:646۔647(طبع دارالسلام) (عن سعيد بن أبي سعيد المقبري يحدث عن أبيه أنه رأى أبا رافع مولى النبي صلى اللّٰهُ عليه وسلم مر بحسن بن علي عليهما السلام وهو يصلي قائما وقد غرز ضفره في قفاه فحلها أبو رافع فالتفت حسن إليه مغضبا فقال أبو رافع أقبل على صلاتك ولا تغضب فإني سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يقول ذلك كفل الشيطان يعني مقعد الشيطان يعني مغرز ضفره) "جناب ابو رافع رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے،سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے پاس سے گزرے جبکہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے،اور انہوں نے اپنے بال اپنی گدی کے پاس بصورت جوڑا اکٹھے کیے ہوئے تھے۔چنانچہ ابو رافع رضی اللہ عنہ ان کے بال کھولنے لگے،تو حسن رضی اللہ عنہ غصے سے ان کی طرف متوجہ ہوئے تو ابو رافع رضی اللہ عنہ نے کہا:اپنی نماز پڑھیے اور غصے مت ہوں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے،فرماتے تھے کہ یہ شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔یعنی اس طرح سے جوڑا باندھ کر یا بنا کر نماز پڑھنا۔" [2] سنن ابی داود،کتاب الصلاۃ،باب المراۃتصلی بغیر خمار،حدیث:641وسنن ابن ماجہ،کتاب الطہارۃ،باب اذاحاضت الجاریۃ لم تصل الا بخمار،حدیث:655وسنن الترمذی،ابواب الصلاۃ،باب لاتقبل صلاۃ المراۃ الابخمار،حدیث:377،ومسند احمد بن حنبل:6؍218،حدیث:25876۔