کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 689
آ جاتے تھے)۔" [1] امام نووی بیان کرتے ہیں کہ قاضی عیاض نے کہا کہ معروف ہے کہ عرب کی عورتیں لمبے بال رکھتی تھیں،اور شاید ازواج نبی نے آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد یہ عمل اپنایا تھا کیونکہ وہ زیب و زینت چھوڑ چکی تھیں،اور انہیں بال لمبے کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہ تھی اور یہ بھی چاہتی تھیں کہ بالوں کے بارے میں انہیں کچھ زیادہ محنت نہ کرنی پڑے۔[2] قاضی عیاض اور دیگر ائمہ نے یہی لکھا ہے کہ ان کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کا ہے،نہ کہ آپ کی زندگی کا۔اور ان سیدات کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسے عمل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔تو اس میں دلیل ہے کہ عورت اپنے سر کے بال ہلکے کروا سکتی ہے۔مذکورہ بالا روایت (ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی والی) میں قاضی عیاض رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سیدہ کا یہ عمل سر دھونا اور جسم کا اوپر کا حصہ دیکھا تھا جس کا کسی محرم کے لیے دیکھنا حلال ہے۔[3] (محمد بن ابراہیم) سوال:عورت کے لیے اپنی چوٹی پر جوڑا بنانا کیسا ہے جسے کہ لوگ کعکعہ سے تعبیر کرتے ہیں؟ جواب:عین سر کے اوپر بالوں کا اس طرح سے جمع کر لینا اہل علم کے نزدیک اس نہی یا تحذیر میں شامل ہے جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس معروف حدیث (صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا بَعْدُ...) میں ذکر کیا ہے،اور اس میں ہے کہ "عورتیں ہوں گی کپڑے پہنے ہوئے مگر ننگی،مائل ہونے والی اور مائل کرنے والی،ان کے سر بختی اونٹوں کے جھکے کوہانوں کی مانند ہوں گے۔"[4] یہ حکم تو عین سر کے اوپر جوڑا بنانے کا ہے۔البتہ گردن پر ان کا جمع کر لینا،تو اس میں کوئی حرج نہیں۔لیکن اگر عورت نے بازار وغیرہ جانا ہے تو اگر اسی حال میں جائے تو یہ وہ تبرج ہو گا (یعنی اظہار زینت ہو گا) جو ممنوع ہے۔کیونکہ باوجود عبایہ (یا برقع) پہننے کے یہ پیچھے اسے
[1] صحیح مسلم،کتاب الحیض،باب القدر المستحب من الماءفی غسل الجنابۃ۔۔۔۔۔،حدیث:320۔ [2] شرح السیوطی علی مسلم:2؍80،حدیث:320۔ [3] یہ حضرات جو اس ملاقات میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئے ہیں یہ دونوں ان کے محرم ہیں۔ابو سلمہ جناب عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کر فرزند اور سیدہ کے بھتیجے ہیں اور دوسرے ان کے اپنے رضاعی بھائی ہیں،اور ضروری نہیں کہ بقول قاضی عیاض رحمۃ اللہ،انہوں نے سیدہ کاغسل کرنا دیکھا ہو،بلکہ جب یہ حضرات آئے تو آپ غسل کے لیے تیار تھیں۔ان کی آمد پر کچھ توقف ہوا۔ادھر انہوں نے غسل نبی کے متعلق سوال کیا کہ تھوڑے سے پانی سے غسل کرلینا بہت عجیب ہے؟سیدہ نے کہا:عجیب نہیں بلکہ یہ ہوسکتا ہے اور ہوتا تھا۔چنانچہ انہوں نے بھی ایک صاع(چار مد،تین ساڑھے تین کلو)پانی منگوا کر پردے میں جاکر غسل کیا اور کہا:دیکھو میں نے اسی پانی سے غسل کیا ہے اور سر بھی دھویا ہے۔(ازافادات شیخنا سلطان محمود رحمۃ اللہ۔(سعیدی)۔ [4] صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النساءالکاسیات العاریات المائلات الممیلات،حدیث:2128ومسند احمد بن حنبل:2؍355،حدیث:8650وصحیح ابن حبان:16؍500،حدیث:6461۔