کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 687
عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا:اسے طاق عدد سے غسل دو اور اس کے بالوں کی چوٹیاں بنا دو۔"[1] جبکہ صحیح ابن حبان میں وضاحت ہے،ام عطیہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے کہ فرمایا: "اغْسِلْنَهَا ثَلاَثًا۔ أَوْ خَمْسًا۔ أَوْ سَبْعًا۔ وَاجْعَلْنَ لَهَا ثَلاَثَةَ قُرُونٍ." "اسے تین،پانچ یا سات بار غسل دو اور اس کے بالوں کی تین چوٹیاں بنا دو۔"[2] مصنف عبدالرزاق میں اور زیادہ تفصیل ہے۔سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: "ضَفَرْنَا ثَلاَثَةَ قُرُونٍ ناصيتها وقرنيها وَأَلْقَيْنَاهُ خَلْفَهَا " "ہم نے اس کے بالوں کی تین چوٹیاں بنائیں ایک پیشانی کے بالوں کی اور دو اطراف کے بالوں کی،اور پھر ہم نے انہیں اس کی کمر کی طرف ڈال دیا۔" [3] امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ کہتے ہیں:"اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے بالوں میں کنگھی اور پھر اس کی مینڈھیاں یا چوٹی بنانا مستحب ہے۔" اور جو آج کل بعض مسلمان عورتوں میں یہ چلن آیا ہے کہ ٹیڑھی مانگ نکالتی ہیں اور گدی کے پاس یا عین چوٹی کے اوپر بنا لیتی ہیں جیسے کہ فرنگی عورتوں کا معمول ہے،تو یہ جائز نہیں ہے،کیونکہ اس میں کافر عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے۔امام احمد اور امام ابوداؤد رحمہما اللہ اپنی اپنی سندوں سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت لائے ہیں کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو کسی قوم کی مشابہت اپنائے وہ ان ہی میں سے ہو گا۔"[4] اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ اور حافظ عراقی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:اس کی سند جید یعنی عمدہ ہے۔اور امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
[1] یہ الفاظ مسند سعید بن منصور سے تو نہیں مل سکے،البتہ اس مفہوم ومعنی کی روایات دیگر کتب میں موجود ہیں۔واللہ اعلم۔دیکھیے:صحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب فی غسل المیت،حدیث:939،وسنن الترمذی،کتاب الجنائز،باب غسل المیت،حدیث:990،سنن النسائی،کتاب الجنائز،باب غسل المیت وترا،حدیث:1885۔ [2] صحیح ابن حبان:7؍304،حدیث:3033۔ [3] صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب یلقی شعر المراۃخلفھا،حدیث:1204وصحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب فی غسل المیت،حدیث:939السنن الکبری للبیھقی:4؍5،حدیث:6558،مصنف عبدالرزاق:3؍402،حدیث:6089یہ روایات الفاظ کی کمی بیشی اور ترتیب الفاظ میں تقدیم وتاخیر کے ساتھ مروی ہیں،اور یہ تمام روایات حضرت ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ ہیں۔(عاصم) [4] سنن ابی داود،کتاب اللباس،باب فی لبس الشھرۃ،حدیث:4031ومسند احمد بن حنبل:2؍50،حدیث:5115،5114۔