کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 672
يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ۔ لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا،وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا " "دو قسم کے لوگ ہیں جو دوزخی ہوں گے،میں نے ابھی تک انہیں دیکھا نہیں ہے۔ایک وہ لوگ کہ ان کے ہاتھ میں کوڑے ہوں گے جیسے کہ بیلوں کی دمیں ہوتی ہیں،وہ ان کے ساتھ لوگوں کو مارتے پھرتے ہوں گے۔اور دوسری عورتیں ہوں گی،لباس پہنے ہوئے مگر ننگی،(دوسروں کو اپنی طرف) مائل کرنے والی،ان کے سر ایسے ہوں گے جیسے کہ بختی اونٹوں کے کوہان،یہ جنت میں داخل نہ ہو سکیں گی اور نہ اس کی خوشبو پا سکیں گی حالانکہ اس کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے محسوس ہوتی ہو گی ۔۔"[1] آپ علیہ السلام کا یہ فرمان کہ "وہ کپڑے پہنے ہوں گی" اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان پر کپڑے تو ہوں گے مگر ان کے لازمی پردے کے لیے کافی نہ ہوں گے یا تو مختصر اور تنگ ہوں گے یا وہ بہت ہلکے اور باریک اور شفاف ہوں گے۔ اس مفہوم کی ایک روایت مسند احمد میں بھی آئی ہے،اگرچہ اس میں کچھ کمزوری بھی ہے۔حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک قبطی (مصری) کپڑا عنایت فرمایا۔پھر آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا:کیا وجہ ہے کہ تو نے وہ قبطی کپڑا پہنا نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کہ وہ میں نے اپنی بیوی کو پہنا دیا ہے۔آپ نے فرمایا: "اسے حکم دینا کہ اس کے نیچے (بنیان کی طرح کا) کوئی زیر جامہ بھی لگا لے،مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اس کی ہڈیوں کا حجم نمایاں کرے گا۔"[2] آج کل کے کپڑے جو اوپر سے اس قدر کھلے ہوتے ہیں کہ کچھ سینہ،کمر ننگی ہوتی،اللہ تعالیٰ کے حکم کے صریحا خلاف ہے۔اللہ کا فرمان ہے: وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ (النور:24؍31) اس کی تفسیر میں امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"اور اس کی صورت یہ ہے کہ عورت اپنی اوڑھنی کی بکل مار لے،اس طرح کہ اس کا گریبان اور سینہ چھپ جائے۔"[3]
[1] صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ،باب النساء الکاسیات العاریات المائلات الممیلات،حدیث:2128ومسند احمد بن حنبل:2؍255،حدیث:8650۔صحیح ابن حبان:16؍500،حدیث:7461۔ [2] مسند احمد بن حنبل:5؍205،حدیث:21834۔ [3] تفسیر قرطبی:12؍205(سورۃالنور،آیت:31)۔