کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 635
ہے۔کہتے ہیں:"اب لوگوں کا ایمان کمزور ہو گیا ہے اور بہت سی عورتوں میں وہ عفت نہیں رہی،تو واجب ہے کہ ان کے چہرے چھپائیں جائیں۔اگر بالفرض یہ مباح بھی ہو مگر اب حالات کا تقاضا ہے کہ اس کے وجوب ستر کا حکم لگایا جائے۔کیونکہ جب کوئی مباح کام کسی حرام کا وسیلہ و ذریعہ بن رہا ہو تو وہ حرام ہو جاتا ہے۔اور قاعدہ بھی یہی ہے۔" تعجب ہے ان لوگوں پر اور ایسے قلم کاروں پر جو بے حجابی کے مناد بنے ہوئے ہیں،ان کی اس کام کے لیے دعوت اور پکار تو ایسے لگتی ہے گویا یہ کوئی واجب کام تھا جسے لوگ چھوڑ بیٹھے ہیں۔بالفرض اس مسئلے میں اگر کچھ نرمی تھی بھی تو صرف ایک مباح کام کے لیے اس زور شور سے تحریک چلانا کس طرح درست ہو سکتا ہے جس کے بدترین نتائج اس کے قائلین نے دیکھ لیے ہیں۔ انسان کے لیے واجب ہے کہ بولنے سے پہلے کچھ سوچ بچار کر لیا کرے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرے۔یہ موضوع اس قسم کے مسائل میں سے ہے کہ بہت سے طالب علموں کو ان کا علم نہیں ہے،اور کچھ کے پاس صرف نظری حد تک کچھ علم ہے۔تو انسان کو لوگوں کے حالات اور ان کے نتائج دیکھ بھال کر ہی کوئی حکم لگانا چاہیے ۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بعض اوقات لوگوں کو کسی مباح چیز سے بھی منع فرما دیا کرتے تھے،اس لیے کہ اس منع میں ان کی مصلحت ہوتی تھی۔مثلا مسئلہ طلاق میں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم،ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں،یعنی ایک جملہ میں تین طلاقیں،یا بقول امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پے درپے تین جملوں میں کہی گئی طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں۔مگر جب لوگوں میں یہ عادت بہت بڑھ گئی تو جناب عمر رضی اللہ عنہ نے کہا؛ لوگ اپنے اس طلاق کے معاملے میں،جس میں انہیں اعتدال اور ٹھہراؤ اختیار کرنا چاہیے تھا،جلدی کرنے لگے ہیں تو اگر ہم ان کی کہی ہوئی طلاقیں ان پر نافذ کر دیں تو (تو شاید یہ لوگ باز آ جائیں اور سمجھ جائیں)۔چنانچہ انہوں نے اسے ان پر نافذ کر ہی دیا اور مذکورہ صورت میں بیویوں کی طرف رجوع کرنا منع کر دیا۔[1] کیونکہ اس بارے میں اس طرح سے جلدی کرنا حرام تھا۔ اور اسی طرح اس مسئلہ میں میں کہتا ہوں کہ بالفرض اگر چہرہ ننگا رکھنا جائز ہو بھی تو امانت علمی اور مصلحت عامہ کا تقاضا یہ ہے کہ اسے ناجائز بتایا جائے،کیونکہ یہ دور ایسا ہے کہ اس میں فتنے بڑھ گئے ہیں،اور یہ منع "تحریم وسائل" کے اصول پر ہو گی۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں چہرہ ننگا رکھنا اصلا حرام ہی ہے (جسے کہ "تحریم المقاصد" کہا جاتا ہے) اور چہرے کو ننگا رکھنے کی حرمت قدموں یا پنڈلیوں کو ننگا رکھنے کی نسبت کہیں بڑھ کر ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:عورت کے چہرے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا ہی "عورہ" ہے (کہ اسے چھپایا جائے)؟
[1] حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک موقع کی تین طلاقوں کو نافذ کردیا۔دیکھئےتفصیل:صحیح مسلم،کتاب الطلاق،باب طلاق الثلاث،حدیث:1472۔مسند احمد بن حنبل:1؍2877۔