کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 634
معزز آدمی پر ہو سکتا ہے۔ بہرحال اہل علم کے ہاں ایک قاعدہ ہے "جب کسی چیز کا احتمال و امکان ہو تو اس سے استدلال غلط ہوتا ہے۔" لہذا یہ حدیث متشابہات میں سے ہے (لہذا اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا)۔ اور ایسی متشابہ نصوص کے متعلق ہم پر واجب ہے کہ انہیں واضح اور محکم نصوص کی طرف لوٹایا کریں۔اور جن ملکوں میں جہاں جہاں عورتوں کے چہرے کھلے رکھنے کی اجازت دی گئی ہے،وہاں اس کے برے نتائج سامنے آ گئے ہیں۔اور پھر ان عورتوں نے بھی صرف چہرے ہی کھلے رکھنے پر اکتفا نہیں کیا ہے،بلکہ چہرے کے ساتھ سر،گردن،گریبان اور بعض اوقات سینہ تک کھولنے لگی ہیں۔اور باوجودیکہ لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کیفیت انتہائی بری اور عام ہے،وہ اپنی عورتوں کو اس سے روکنے سے عاجز ہیں۔اور یقین کیجئے کہ اگر آپ شرم و حیا کا ایک پٹ کھولیں گے تو جلد ہی بہت سے دروازے کھل جائیں گے۔اگر آپ اسے معمولی سی راہ دیں گے تو آگے چل کر وہ اس قدر پھیل جائے گا کہ آپ اسے بند نہیں کر سکیں گے۔الغرض شرعی نصوص اور تمام تر عقلی دلائل ثابت کرتے ہیں کہ عورت کو اپنا چہرہ چھپانا واجب ہے۔اور مجھے تعجب آتا ہے ان حضرات پر جو عورتوں کو اپنے قدم چھپانا تو واجب کہتے ہیں مگر چہرے کھلے رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔غور کیا جانا چاہیے کہ ان میں سے چھپانے کے زیادہ لائق کیا چیز ہے؟ چہرہ یا قدم؟ کیا بھلا ہاتھوں اور انگلیوں کی خوبصورتی،ان کی نزاکت اور جاذبیت قدموں سے بڑھ کر نہیں ہوتی؟ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شریعت اسلامی جو اپنے اندر جامعیت اور کمال رکھتی ہے اور حکیم و خیر رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے،عورت کو اپنے پاؤں چھپانے کا حکم تو دے اور چہرہ کھلا رکھنے کا کہے،یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یقینا ایسی بات نہیں ہے،یہ ایک بڑا تناقض ہو گا۔مردوں کی توجہ قدموں کی بجائے چہرے پر کہیں زیادہ ہوتی ہے۔کیا خیال ہے کہ کوئی نکاح کا پیغام دینے والا کسی عورت کے متعلق اس طرح کہے گا کہ اس کے پاؤں توجہ دے دیکھنا کہ خوبصورت ہیں یا نہیں؟ بلاشبہ یہ ایک محال بات ہے۔فتنے کا مقام چہرہ ہے،اور اس کے لیے جو لفظ "عورۃ" آتا ہے،اس کے معنی وہ نہیں ہیں جو شرمگاہ کے لیے ہیں،بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ "یہ چھپانے کے لائق ہے۔" یہ لوگ بڑے عجیب ہیں کہ ایک طرف تو عورتوں کے سر کے ایک دو بال ننگے ہونے کو ناجائز کہتے ہیں مگر بنے سنورے سیاہ خوبصورت ابروؤں کا دکھانا جائز کہتے ہیں۔جبکہ آج کل زیب و زینت کے دسیوں انداز نکل آئے ہیں۔کہیں سرخیاں ہیں اور کہیں طرح طرح کی کریمیں وغیرہ۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ کوئی انسان جسے عورتوں کے فتنوں کا علم ہو،ناممکن ہے کہ مطلق طور پر ان کے چہرے کھلے رکھنے کا کہے اور پاؤں چھپانے کا حکم دے،اور پھر اسے شریعت کی طرف منسوب کرے؟ اور یہی وجہ ہے کہ متاخرین میں سے کچھ نے لکھا ہے کہ علمائے مسلمین کا اتفاق ہے کہ عورت کے لیے چہرہ چھپانا واجب ہے کیونکہ اس میں بہت بڑا فتنہ ہے۔جیسے کہ صاحب نیل الاوطار نے ابن ارسلان سے نقل کیا