کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 633
کام آزادانہ اظہار کرتی ہیں،جس کا نتیجہ فواحش و منکرات کے عام ہونے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔خاندان ٹوٹنے لگے ہیں اور شر و فساد معاشرے میں عام ہو گیا ہے۔ولا حول ولا قوة الا باللّٰه ۔ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ سب کو اپنی سیدھی راہ کی ہدایت دے اور ہمیں اور آپ بلکہ سب بھائیوں کو علم نافع اور اس پر عمل کی توفیق دے،اور وہی سب سے بڑھ کر بہترین ذات ہے جس سے سوال کیا جا سکتا ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:صحیح مسلم میں ہے کہ ایک لڑکی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے نکاح کا پیغام دینے والے کو کھلے منہ مشروب پیش کیا تھا۔آپ اس حدیث کا کیا جواب دیں گے؟ جواب:یہ اور اس قسم کی سب احادیث جن میں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کی عورتیں اپنے چہرے کھلا رکھا کرتی تھیں۔اس بات پر معمول میں کہ یہ سب واقعات فرضیت حجاب سے پہلے کے ہیں۔کیونکہ وہ آیات جن میں پردے کے وجوب کا بیان ہے چھٹی ہجری کے آخر میں نازل ہوئی ہیں،اور اس سے پہلے پردے کا کوئی اہتمام نہ تھا اور کچھ احادیث ایسی بھی ہیں جن میں یہ ہے کہ یہ واقعات نزول حجاب کے بعد کے ہیں۔یہ اس لائق ہیں کہ ان کا جواب دیا جائے۔مثلا قبیلہ بنی خثعم کی وہ عورت جو حجۃ الوداع کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے آئی تھی،اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہما اسے اور وہ انہیں دیکھنے لگی تھی،تو آپ نے حضرت فضل رضی اللہ عنہ کا منہ دوسری طرف موڑ دیا۔[1] اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو کہتے ہیں کہ عورت اپنا چہرہ کھلا رکھ سکتی ہے۔یہ حدیث بلاشبہ متشابہات میں سے ہے،جس میں جواز اور عدم جواز دونوں کا احتمال ہے۔جواز کا احتمال تو ظاہر ہے،اور عدم جواز کا احتمال اس طرح ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بحالت احرام عورت کا چہرہ کھلا ہونا چاہیے ۔اور کہیں یہ بیان نہیں آیا کہ سوائے نبی علیہ السلام یا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کے کسی اور نے اس کو دیکھا تھا۔اور پھر فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کا چہرہ تو آپ علیہ السلام نے دوسری طرف پھیر دیا تھا۔آپ نے ان کو اسے دیکھنے کی اجازت نہ دی۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس کا اس عورت کو دیکھنا تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ آپ کے لیے جائز تھا کہ آپ کسی عورت کو دیکھیں،یا اس کے ساتھ علیحدہ ہو سکیں،جو دوسروں کے لیے جائز نہ تھا۔جس طرح آپ کو کسی عورت کے ساتھ بلا مہر،بغیر ولی نکاح کی اجازت تھی،اور آپ کو یہ بھی جائز تھا کہ چار سے زیادہ عورتوں کے ساتھ نکاح کر لیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان امور میں کچھ ایسی وسعت عنایت فرمائی تھی جو کسی اور کے لیے نہ تھی اور آپ اپنی عفت میں بھی کمال انتہا پر تھے اور آپ پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا جو کسی دوسرے معزز سے
[1] صحیح بخاری،کتاب الحج،باب وجوب الحج وفضلہ،حدیث:1442وصحیح مسلم،کتاب الحج،باب الحج عن المعاجز لزمانۃوھرم،حدیث:1334وسنن ابی داود،کتاب المناسک،باب الرجل یحج عن غیرہ،حدیث:1809۔