کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 612
سوال:میری ایک چچا زاد بہن ہے،میں نے اس کا صرف ایک بار دودھ پیا ہے۔کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اس کے ساتھ شادی کر لوں؟ جواب:صرف ایک رضعہ (ایک بار دودھ پینا،ایک چوسنی) حرمت کا باعث نہیں بنتا۔ضروری ہے کہ یہ پانچ رضعات ہوں اور دودھ چھڑانے کی مدت سے پہلے پہلے پیا ہو۔محض ایک،دو،تین یا چار بار دودھ پینے سے کوئی آدمی کسی عورت کا بیٹا نہیں بن جاتا۔ضروری ہے کہ واضح اور یقینی طور پانچ پیا ہو۔اگر کہیں شک ہو کہ چار بار پیا ہے یا پانچ بار،تو اصل یہی ہے کہ یہ چار بار سمجھا جائے گا،کیونکہ ہمیں اس میں شک ہے،اور جہاں کہیں شک ہو وہاں وہی عدد لیا جاتا ہے جو کم ہو۔مثلا اگر کوئی عورت یہ کہے کہ میں نے اس بچے کو دودھ پلایا ہے مگر معلوم نہیں کہ ایک بار یا دو بار یا تین بار یا چار بار یا پانچ بار پلایا ہے،تو ہم کہیں گے کہ یہ اس کا بیٹا نہیں بنا ہے،کیونکہ ضروری ہے کہ یقینی طور پر بلاشک و شبہ پانچ رضعات معلوم ہوں۔[1] (محمد بن صالح عثیمین) سوال:ایک شخص نے اپنی ایک قرابت دار کے لیے نکاح کا پیغام دیا تو لڑکی کے والد نے یہ عذر کر کے انکار کر دیا کہ اس نے تمہارے ساتھ دودھ پیا ہے۔پھر جب لڑکی کا والد فوت ہو گیا تو اس لڑکے نے اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لی۔جب کہ عادل گواہوں نے اس لڑکی کی ماں کے متعلق گواہی دی ہے کہ اس نے اس لڑکے کو دودھ پلایا ہے،مگر بعد میں اس عورت نے اپنی بات سے انکار کیا اور کہا کہ پہلے جو اس نے کہا تھا ایک مقصد اور غرض کے تحت کہا تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا ان کا نکاح جائز ہے؟ جواب:اگر عورت حق سچ بولنے میں معروف ہو اور اس نے بتایا ہو کہ وہ اس لڑکے کو پانچ رضعات دودھ پلا چکی ہے،تو اس کی یہ بات مقبول ہو گی۔اور اگر ان لڑکے لڑکی کا نکاح ہو چکا ہو تو ان میں تفریق کرا دی جائے،جیسے کہ علماء کا صحیح تر قول ہے۔اور صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ اپنی بیوی کو علیحدہ کر دے،اس وجہ سے کہ ایک سیاہ لونڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ان دونوں کو دودھ پلا چکی ہے۔[2] اور اگر عورت کی صداقت میں شبہ ہو یا عدد رضعات میں شک ہو تو بھی یہ معاملہ مشکوک قرار پائے گا،تو اس سے اجتناب بہتر ہے،تاہم جب تک کوئی معتبر دلیل نہ ملے ان میں تفریق کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔اور اگر وہ عورت نکاح سے پہلے ہی اپنی شہادت سے پھر گئی ہو تو یہ زوجہ حرام نہیں ہو گی لیکن اگر معلوم ہو کہ یہ عورت اپنی شہادت سے رجوع میں جھوٹی ہے اور اس نے اپنی شہادت سے رجوع کیا ہے،اور پھر وہ شوہر بھی اس بیوی سے مجامعت
[1] راقم مترجم کی رائے میں جب عددرضعات میں شبہ ہو تو معاملہ مشتبہ ہو جاتا ہے۔لہٰذا نکاح کے معاملات میں شبہات سے بچنا ازحدضروری ہے جیسے کہ ذیل میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور جناب محمد بن عبدالمقصود حفظہ اللہ کے فتاویٰ موجود ہیں۔بلکہ جناب محمد بن صالح عثیمین کا اپنا فتویٰ بھی آگے آرہا ہے۔ [2] صحیح بخاری،کتاب الشھادات،باب اذاشھد شاھد،حدیث:2640وسنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاءفی شھادۃالمراۃالواحدۃفی الرضاع،حدیث:1151۔