کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 610
سوال:ایک خاتون کا سوال ہے کہ مجھے درج ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں: الف:میری نانی کے بیٹے میری بہنوں کے ہم عمر ہیں۔میری والدہ نے اپنے چھوٹے بھائی محمد کو میری بہن سعاد کے ساتھ دودھ پلایا ہے۔ ب:میری والدہ نے اپنی بڑی بہن کے بیٹے ثمیر کو میری بہن سحر کے ساتھ دودھ پلایا ہے،اس لیے کہ وہ بیمار تھی،اور یہ صرف میری والدہ نے پلایا ہے۔ ج:میری والدہ نے میری چھوٹی بہن کو میری چھوٹی بہن کے ساتھ دودھ پلایا ہے،ان کی عمر تقریبا برابر تھی،میری بہن دوسری سے صرف ایک ماہ بڑی تھی،رات کے کسی وقت و چلانے لگی تو میری والدہ نے سوتے میں اسے دودھ پلا دیا۔جب جاگی تو معموم ہوا کہ اس کے دامن میں تو اس کی اپنی نواسی ہے۔تب ایک عالم سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ اب اسے اور دودھ پلا دو تاکہ شبہ نہ رہے۔چنانچہ اس نے اسے دوسری بار پھر پلا دیا،اور پھر تبادلہ میں میری بہن نے بھی اپنی بہن کو دودھ پلا دیا۔سوال یہ ہے کیا میرے سب ماموں میرے رضاعی بھائی بن گئے ہیں؟ یا صرف چھوٹا ماموں ہی میرا رضاعی بھائی بنا ہے؟ اور کیا میں اپنے ماموں کے بچوں کی پھوپھی بن گئی ہوں یا نہیں؟ جواب:اگر آپ کی والدہ نے آپ کے کسی ماموں یا کسی خالہ کو پانچ یا اس سے زیادہ بار دودھ پلایا ہے بشرطیکہ دو سال کے اندر اندر ہو تو آپ کی والدہ اس دودھ پینے والے ماموں اور دودھ پینے والی آپ کی خالہ کی ماں بن جائے گی اور تم بھی ان سب کی جن کو دودھ پلایا گیا ہو بہن بن جائیں گی۔اور ایسے ہی جب آپ کی والدہ نے آپ کی بھانجی کو پانچ یا اسے زیادہ بار دودھ پلایا ہو اور دو سال کی عمر کے دوران میں پلایا ہو تو آپ کی والدہ رضاعی اعتبار سے ان کی ماں اور نسبی لحاظ سے نانی ہو گی۔اور رضاعت کے سب مسائل میں یہی انداز ہے۔ہاں اگر یہ دودھ پینا پانچ بار (پانچ رضعات یا پانچ چوسنیوں) سے کم ہو تو اہل علم کے صحیح تر قول کے مطابق اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی اور نہ رضاعی رشتہ قائم ہوتا ہے۔اور ایسے ہی اگر دودھ پینے والا بچہ دو سال سے بڑا ہو تو بھی رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:لا رضاع الا فى الحولين "رضاعت وہی معتبر ہے جو (ابتدائی) دو سال کے اندر اندر ہو۔" (سنن الدارقطنی:4؍174،حدیث:11۔) اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ "ابتدا میں دس معلوم رضعات سے حرمت ثابت ہوتی تھی،پھر انہیں منسوخ کر کے پانچ معلوم رضعات کر دیا گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات ہوئی تو معاملہ اسی طرح تھا۔"[1] (عبدالعزیز بن باز)
[1] صحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب التحریم بخمس رضعات،حدیث:1452۔سنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاءلا تحرم المصۃولا المصتان،حدیث:1150 وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب القدر الذی یحرم الرضاعۃ،حدیث:3309۔