کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 603
وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ (البقرۃ:2؍221) "اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو حتی کہ وہ ایمان لے آئیں،(ان کے مقابلہ میں) مومنہ لونڈی مشرکہ عورت سے بہت بہتر ہے خواہ وہ (مشرکہ) تمہیں کتنی ہی اچھی کیوں نہ لگے۔اور مشرک مردوں کو (اپنی لڑکیاں) نہ بیاہ دو،حتی کہ وہ ایمان لے آئیں۔" مردوں سے فرمایا ہے کہ "مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو۔" اور مسلمان عورتوں کے بارے میں فرمایا:"مشرکوں کو نکاح نہ کر دو۔" یہ الفاظ دلیل ہیں کہ عورت اپنے نکاح کے سلسلے میں مستقل بالذات نہیں ہے۔ اسی طرح نکاح کی ترغیب کے سلسلے میں اولیاء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ (النور:24؍32) "اور تم میں سے جو نکاح کیے بغیر ہیں ان کے نکاح کر دو اور (اسی طرح) اپنے صالح غلاموں کے بھی۔" اور عورتوں کے معاملات میں بھی اولیاء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ ۗ (البقرۃ:2؍232) "تو انہیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو جب وہ بھلائی کے ساتھ آپس میں رضا مند ہوں۔" اگر نکاح میں ولی ہونا شرط نہ ہوتا تو اس فرمان میں اس کے منع کی کوئی حیثیت ثابت نہیں ہوتی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بصراحت فرمایا ہے کہ: "لا نِكاحَ إلَّا بِوَلِيٍّ" "ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں۔"[1] اور فرمایا: "لا تُنْكَحُ الَأيِّمُ حتَّى تُسْتَأْمَرَ،ولا تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ" "شوہر دیدہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے یہاں تک کہ اس سے مشورہ کر لیا جائے،اور کنواری کا بھی جب تک کہ اس سے اجازت نہ لے لی جائے۔" [2]
[1] سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب فی الولی،حدیث:2085۔سنن الترمذی،کتاب النکاح،باب ماجاءلانکاح الابولی،حدیث:1101وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب لانکاح الابولی،حدیث:1881۔ [2] صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب لاینکح الاب وغیرہ البکر والثیب الا برضاھا،حدیث:4843وصحیح مسلم،کتاب النکاح،باب استئذان الثیب فی النکاح،حدیث:1419۔