کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 602
دنیاوی لالچ کے تحت کسی صالح آدمی کا پیغام ٹھکرا دینا اللہ کی ناراضی کا باعث ہو سکتا ہے؟ جواب:سب سے اہم صفات جن کا کسی امیدوار نکاح میں لحاظ رکھنا ضروری ہے،اس کا با اخلاق اور دین دار ہونا ہے۔ان کے مقابلے میں مال اور نسب یہ ثانوی چیزیں اور غیر اہم ہے۔ایسا آدمی اگر اسے رکھے گا تو معروف اور بھلائی کے ساتھ رکھے گا اور اگر چھوڑے گا تو احسان کے ساتھ چھوڑے گا۔علاوہ ازیں ایک صاحب دین اور با اخلاق شوہر اس کے لیے اور اس کی اولاد کے لیے باعث برکت ہو گا اور دوشیزہ (اور پھر اس کی اولاد) اس سے دین و اخلاق کی تعلیم پائیں گے۔ اور جو ان سے عاری ہو اس سے دور ہی رہنا چاہیے ۔بالخصوص بعض لوگ نماز کے معاملے میں سست اور غافل ہوتے ہیں یا شراب نوش وغیرہ،والعیاذباللہ۔جو لوگ بالکل ہی نماز نہیں پڑھتے وہ تو کافر ہیں،صاحب ایمان عورتیں ایسے لوگوں کے لیے یا ایسے مرد با ایمان عورتوں کے لیے حلال نہیں ہیں۔مختصر یہ کہ ایک عورت کو چاہیے کہ اپنے ہونے والے شوہر میں دین و اخلاق کو پرکھیں۔ نسب،اگر حاصل ہو تو بہتر ہے،ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد رکھیں: "إِذَا أَتَاكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْكِحُوهُ" "جب تمہیں کوئی ایسا آدمی پیش کش کرے جس کا اخلاق اور دین پسندیدہ ہو تو اس سے نکاح کر دو۔"[1] الغرض اسی طرح کا ہم پلہ آدمی مل جائے تو بہت عمدہ ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ رہی ہوں اور شرعی آداب کی پابند عورت ہوں۔مجھے ایک نوجوان نے نکاح کا پیغام دیا ہے اور وہ حیلے سے مجھے ملنا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ "بس اب تو میری بیوی ہے۔" اور اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ بعض اہل علم شہرت دیے بغیر نکاح کو جائز کہتے ہیں کہ بعد میں اعلان کرایا جائے گا۔نیز امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کا بھی سہارا لیتے ہیں کہ "جس نے شہرت دیے بغیر نکاح کیا ہو،اسے رجم نہیں کیا جائے گا۔" اور میں (سائلہ) اکیلی رہتی ہوں،میں نے اس شخص کو ملنے سے انکار کر دیا ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ "تو میری بیوی ہے،تو مجھے کیسے منع کر سکتی ہے" اور جب میں کہتی ہوں کہ گواہ لاؤ اور میرے والد کو لے آؤ،تو وہ کہتا ہے کہ میں ایسے گواہ تلاش کر رہا ہوں جو اس خبر کو فی الحال پوشیدہ رکھیں تاکہ میری پہلی بیوی کو علم نہ ہو،میں اسے بعد میں خود ہی بتاؤں گا۔ جواب:ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں اور نہ ہی کسی کے لیے ممکن ہے کہ عورت کے عصبہ میں سے کسی ولی کی موجودگی کے بغیر اس سے نکاح کر سکے،اور ولی بھی وہ جو شرعی ترتیب سے اولیٰ ہو۔بغیر ولی کے نکاح قطعا صحیح نہیں ہے۔کتاب و سنت سے یہی ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[1] سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب الاکفاء،حدیث:1967،المستدرک للحاکم:2؍179،حدیث :2695۔