کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 601
میں سمجھتا ہوں کہ لڑکی جب اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کر لے اور لکھنا پڑھنا بخوبی جان لے کہ قرآن کریم،تفسیر،احادیث نبویہ اور ان کی شروحات پڑھ سکتی ہو تو یہ اس کے لیے کافی ہے۔ہاں ایسے علوم و فنون جن کی لوگوں کو اشد ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ علم طب وغیرہ ہے تو ان میں عورتوں کو ضرور آگے بڑھنا چاہیے بشرطیکہ کوئی شرعی رکاوٹ از قسم مردوں کے ساتھ اختلاط وغیرہ نہ ہو۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:بغیر کسی معقول وجہ کے قطع نسل (نس بندی یا خاندانی منصوبہ بندی)کا کیا حکم ہے؟ اور وہ کیا کیا عذر ہیں جن کی بنا پر یہ عمل جائز ہو سکتا ہے؟ جواب:علمائے کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ کلی طور پر قطع نسل کی کوشش کرنا حرام ہے،کیونکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش اور احادیث کی مخالفت ہے جو آپ نے اپنی امت میں چاہی ہے،[1] اور یہ عمل مسلمانوں کی ذلت و کمزوری کا ایک بڑا سبب ہے۔مسلمانوں کی تعداد جس قدر زیادہ ہو گی اس میں ان کی شان اور رفعت ہے۔اللہ عزوجل نے بنی اسرائیل کی کثرت تعداد کو ان پر ایک بڑے احسان کے طور پر شمار فرمایا ہے: وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا﴿٦﴾(الاسراء:17؍6) "اور تمہارے افراد کو بہت زیادہ بنا دیا۔" شعیب علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو یہی انعام یاد دلایا اور فرمایا: وَاذْكُرُوا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ (الاعراف:7؍86) "اور یاد کرو کہ تم تھوڑے تھے تو اللہ نے تمہیں زیادہ کر دیا۔" اور صورت حال اس کی بہترین گواہ ہے کہ جو قوم کثیر تعداد میں ہو وہ دوسروں سے مستغنی ہوتی ہے اور اسے اپنے دشمنوں کے مقابلے میں رعب و ہیبت حاصل ہوتا ہے،تو انسان کے لیے جائز نہیں کہ کلی طور پر قطع نسل کی کوشش کرے۔ہاں اگر فی الواقع اس کی ضرورت ہو تو ایک بات ہے۔مثلا کوئی ماں صحت کے اعتبار سے ایسی کمزور ہو کہ اگر حمل سے دوچار ہوئی ہو تو اسے ہلاکت اور موت کا اندیشہ ہو تو یہ ایک شرعی ضرورت ہے۔ایسی عورت کے لیے جائز ہے کہ اس کی نس بندی کر دی جائے کہ وہ آئندہ کے لیے حاملہ نہ ہو۔یا مثلا اس کے رحم میں کوئی ایسی تکلیف ہو اور اندیشہ ہو کہ اگر اسے نکالا نہ گیا تو عورت ہلاک ہو جائے گی تو ایسی صورت میں اس کا رحم کاٹ کر نکال دینا جائز ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:وہ کیا خاص صفات ہیں جن کے پیش نظر کسی دوشیزہ کو اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کرنا چاہیے ؟ اور کیا کسی
[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش یہ تھی کہ تم زیادہ بچے پیدا کروگے تو میری امت بڑھتی جائے گی اور پھر میں روز قیامت دیگر امتوں کے مقابل اپنی امت کے کثیر ہونے پر فخر(خوشی محسوس)کروں گا۔دیکھیے:سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب النھی عن تزوج من لم یلد من النساء،حدیث:2050۔