کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 586
نافرمان رہی اور اپنے شوہر کی اطاعت نہیں کرتی،بلکہ دھمکی دیتی ہے کہ اگر مجھے مجبور کیا گیا تو خودکشی کر لوں گی؟ جواب:جب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہوں جیسے کہ آپ نے لکھا ہے کہ ان زوجین کے مابین از حد نا موافقت ہے اور امید بھی نہیں کہ ان کی صلح ہو جائے،جبکہ لڑکی شروع ہی سے مجبور کی گئی تھی،تو پہلے تو ان کی صلح کی کوشش کرنی چاہے،ورنہ ان کی علیحدگی کرا دینی چاہیے چاہے وہ خلع سے ہو یا اس کے علاوہ سے،اور شوہر کے لیے بھی مستحب یہی ہے کہ اس حالت میں خلع پر راضی ہو جائے،بلکہ بعض تو واجب کہتے ہیں۔اور صحیح بخاری کی حدیث جو حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ باغ قبول کر لو اور اسے ایک طلاق دے دو۔"[1] یہ اس (خلع) کے وجوب کی دلیل ہے۔ اور والد نے جو اپنی بیٹی کو اس کی ناپسندیدگی کے باوجود بیاہ دیا ہے،اس بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ صحت نکاح کی شروط میں "رضا مندی" بڑی اہم شرط ہے،لڑکی خواہ کنواری ہی کیوں نہ ہو،باپ کو جبر کا حق نہیں ہے،اور اس قول کے دلائل بھی واضح ہیں۔مثلا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بیوہ (یا مطلقہ) کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بھی جب تک اس کی اجازت نہ لے لی جائے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:"اس کی اجازت کیسے ہو گی؟" فرمایا:"یہ کہ وہ خاموش رہے۔"[2] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک کنواری کا اس کے باپ نے نکاح کر دیا جبکہ وہ اسے ناپسند کرتی تھی،اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا بتایا کہ میرے باپ نے میرا نکاح کر دیا ہے اور میں ناپسند کرتی ہوں،تو نبی علیہ السلام نے لڑکی کو اختیار دے دیا۔"[3] (محمد بن ابراہیم) سوال:ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھ تک نہیں سکتی۔جونہی وہ اس کے پاس جاتی ہے بیمار ہو جاتی ہے؟ جواب:معاملہ ملاحظہ ہوا کہ عورت اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھ تک نہیں سکتی اور عادل گواہوں نے بھی گواہی دی ہے کہ عورت جب بھی شوہر کے پاس جاتی ہے بیمار ہو جاتی ہے۔اور اس شادی کو دس سال ہو رہے ہیں اور اسے عرصے میں ان میں کوئی موافقت نہیں ہوئی ہے اور شوہر اس کو جدا کرنے یا عوض قبول کرنے پر بھی راضی نہیں ہے تو شرعی قاضی کو حق حاصل ہے کہ وہ اس نکاح کو اس حق مہر کے بدلے جوشوہر نے دیا ہے،فسخ کر دے (یعنی شوہر کو واپس کرا دے)۔(محمد بن ابراہیم)
[1] صحیح بخاری،کتاب الطلاق،باب الخلع،حدیث:5273۔سنن ابی داود،کتاب الطلاق،باب فی الخلع،حدیث؛2227۔ [2] صحیح بخاری،کتاب الحیل،باب فی النکاح،حدیث:6968وصحیح مسلم،کتاب النکاح،باب استئذان الثیب فی النکاح،حدیث:1419۔ [3] سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب فی البکریزوجھاابوھاولا یستامرھا،حدیث:2096وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب من تزوج ابنتہ وھی کارھۃ ،حدیث:1875۔