کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 573
والد سے ملنے کے لیے آ جایا کرتی تھیں،اور جب رات ہو جاتی تو وہ انہیں حکم دیتے کہ اپنے گھر چلی جائے۔[1] مصنف عبدالرزاق ہی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان عورتوں کو جن کے شوہر وفات پا گئے ہوتے اور وہ اکیلے بیٹھنے سے پریشان ہوتیں،اجازت دیتے تھے کہ وہ کسی ایک کے گھر میں اکٹھی ہو جایا کریں،حتی کہ جب رات ہو جاتی تو ہر ایک سونے کے لیے اپنے گھر چلی جاتی تھی۔[2] (محمد بن عبدالمقصود) سوال:ایک عورت کو طلاق ہوئی اور اسے ساڑھے چار ماہ بعد اپنی طلاق کا علم ہوا تو اس کو عدت گزارنی ہو گی یا اس کی عدت پوری ہو چکی؟ جواب:عدت وفات یا عدت طلاق کی ابتدا اسی دن سے ہے جس دن سے ان میں فراق ہوا ہے۔اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی وفات کا علم ساڑھے چار ماہ بعد ہو،جیسے کہ سائل نے دریافت کیا ہے،تو اس کی عدت پوری ہو چکی۔اس کی عدت کی ابتدا فرقت کے دن ہی سے شروع ہو گی۔اور اگر کسی کو بالفرض دو ماہ بعد علم ہو تو اس کی عدت سے دو ماہ دس دن باقی رہ جائیں گے۔اور اگر کسی عورت کو شوہر نے طلاق دی ہو،جبکہ وہ اس سے غائب اور دور ہو اور پھر عورت کو اس وقت طلاق ملتی ہے جب اس کے تین حیض گزر چکے ہوں،تو اس عورت کی عدت گزر چکی ہو گی،اب اس کے لیے حلال ہو گا کہ بلا تاخیر نکاح کر لے،کیونکہ اس میں اعتبار اس بات کا ہے کہ فرقت کب ہوئی ہے،وہ وفات سے ہو یا طلاق سے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:اگر کوئی عورت بہت بوڑھی ہو یا چھوٹی عمر کی ہو کہ ابھی بالغ نہ ہوئی ہو تو کیا ان کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ عدت پوری کریں؟ جواب:ہاں،ایسی بوڑھی عورت جسے مردوں کی طرف رغبت نہ ہو،یا صغر السن جو بالغ نہ ہوئی ہو،ان پر عدت وفات ہے،کہ چار ماہ دس دن عدت گزاریں۔اور اگر بیوی حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے،جیسے کہ آیت کریمہ کے عموم کا تقاضا ہے: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ (البقرۃ:2؍234) "اور جوتم میں سے فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں،تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن تک روکے رکھیں۔" اور حاملہ کے لیے فرمایا: وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (الطلاق:65؍4)
[1] مصنف عبد الرزاق:7؍31،حدیث:12064۔ [2] مصنف عبد الرزاق:7؍32،حدیث:12068۔