کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 572
اور اس پر جنازہ پڑھے جانے سے پہلے ہی اس نے بچے کو جنم دے دیا ہو تو یہ عدت سے خارج ہو جائے گی۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (الطلاق:65؍4) "اور حمل والیوں کی عدت یہ ہے کہ وہ بچے کو جنم دے دیں۔" اور دوران عدت میں عورت پر سوگ کی کیفیت ہونا ضروری ہے۔یعنی ہر ایسی زینت سے پرہیز کرنا جو اس کی طرف دیکھنے وغیرہ کا باعث ہو سکتی ہے اور اس میں درج ذیل امور آتے ہیں: 1۔ اس پر واجب ہے کہ اسی گھر میں رہے جس میں شوہر کی وفات ہوئی ہو اور یہ اس میں رہائش پذیر تھی۔بلا کسی اہم اور شدید ضرورت کے گھر سے نہ نکلے،اور وہ بھی صرف دن میں۔ 2۔ دوسرے،ہر طرح کی خوشبو سے پرہیز کرے،خواہ وہ کوئی کریم وغیرہ ہو یا اگر بتی کی قسم کی خوشبو۔سوائے ایک موقع کے کہ حیض سے پاک ہونے کے بعد کوئی خوشبو استعمال کر سکتی ہے،تاکہ حیض کی ناپسندیدہ بو دور ہو جائے۔ 3۔ تیسرے،ہر طرح کے زیورات سے پرہیز کرے،خواہ وہ ہاتھ کی چوڑیاں یا کنگن ہوں یا گلے کا ہار،کانوں کی بالیں یا پاؤں کی پازیب یا سر کی کوئی زینت۔ 4۔ ہر طرح کی زینت (میک اپ) سے پرہیز کرے،مثلا سرمہ یا کاجل،ہونٹوں کی سرخی اور ہاتھ پاؤں پر مہندی وغیرہ۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:عورت کے لیے شوہر کی عدت وفات میں گھر سے باہر نکلنے کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ کوئی درس وغیرہ سننے کے لیے گھر سے باہر چلی جائے،تاکہ اس کا یہ غم کسی قدر کم ہو جائے؟ کیونکہ یہ گھر میں ہر وقت شوہر کا تذکرہ کرتی رہتی ہے،اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس طرح تقدیر پر عدم رضا کا شکار ہو جائے۔ جواب:ہاں یہ جائز ہے،بشرطیکہ رات اپنے گھر میں گزارے۔حضرت عمر،زید بن ثابت،اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم کا یہی مذہب ہے۔ابن ابی شیبہ میں مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس عورت کو جس کا خاوند فوت ہو جاتا اجازت دیتے تھے کہ دن کی روشنی میں اپنے اہل کے ہاں چلی جایا کرے۔[1] اورایسے ہی جناب زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔[2] اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بیٹی کا شوہر فوت ہو گیا تو وہ دن کی روشنی میں اپنے
[1] مصنف ابن ابی شیبۃ:4؍155،156،حدیث:18862،18872۔ [2] مصنف ابن ابی شیبۃ:4؍155،حدیث:18863۔