کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 559
اگر فی الواقع وہ مجبور کر دی گئی تھی تو طلاق نہیں ہو گی۔اگر اکراہ اور مجبوری ثابت نہ ہو تو ثابت ہو جائے گا کہ وہ اپنی مرضی سے رکی رہی تھی۔(محمد بن ابراہیم) سوال:ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ہمسایوں کے گھروں میں جانے سے منع کیا اور اس بات کو طلاق کے ساتھ معلق کر دیا (یعنی اگر گئی تو تجھے طلاق)۔مگر وہ بھولے سے چلی گئی،تو میاں بیوی میں جھگڑا ہو گیا،اور شوہر نے اسے مارا تو عورت نے کہا:مجھے طلاق دو اسے اور غصہ آ گیا اور طلاق دے دی،پھر اسے اس پر ندامت ہوئی۔اور عورت نے اسے جو کچھ اس نے کہا تھا نہیں دیا۔اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:پہلی طلاق،جب وہ بھول کر ہمسایوں کے گھر گئی ہے،نہیں ہوئی۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے: رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا (البقرۃ:2؍286) "اے ہمارے رب!اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر جائیں تو ہمیں مت پکڑ۔" حدیث میں ہے،اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے فرمایا:(قد فعلت) (میں نے قبول کیا) [1] اور دوسری طلاق میں بھی ظاہر یہی ہے کہ نہیں ہوئی،کیونکہ یہ طلاق بالعوض تھی،اور چونکہ عورت نے آپ کو کچھ نہیں دیا،لہذا آپ کا اس کی طرف رجوع صحیح ہے اور وہ آپ کی بیوی ہے۔اور آپ کو چاہیے کہ اس کے ساتھ بھلے طریقے سے وقت گزاریں اور اپنی زبان کی حفاظت کریں اور طلاق کے لفظ زبان پر لانے سے احتراز کریں،کہیں اپنی بیوی نہ کھو بیٹھیں۔(محمد بن ابراہیم) سوال:(ایک لڑکی کا سوال ہے کہ) مجھے میرے منگیتر نے کہا کہ اگر تو میری اجازت کے بغیر،اپنے کام پر جانے کے علاوہ،کہیں بھی گئی تو تو میرے لیے قیامت تک کے لیے حرام ہو گی،اور اب میں اپنے گھر میں محبوس ہوں۔حالانکہ میرے گھر والوں کو بہت سے گھریلو امور سر انجام دینے کے لیے میرے باہر جانے کی اشد ضرورت ہے اور میں نہیں جا سکتی ہوں۔اور جب کسی وقت میں نے اجازت لینے کی کوشش کی ہے تو اس نے انکار کر دیا ہے۔اس طرح کے معاملات میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیا اگر میں اس کی اجازت کے بغیر باہر چلی جاؤں تو اس کا میرے ساتھ ارتباط حرام ہو جائے گا؟ میں اس کی اس قسم کے بارے میں کیا کروں؟ جواب:میرا آپ کو خیر خواہانہ مشورہ یہ ہے کہ اس آدمی کو چھوڑ دیں،یہ تمہیں بہت اذیت دے گا۔میں کہوں گا کہ اس کے بجائے کوئی اور شوہر تلاش کر لیں۔تاہم فقہی اعتبار سے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی یوں کہہ دے کہ "اگر میں نے فلاں عورت سے شادی کی تو اسے طلاق" اہل علم کا اس میں اختلاف ہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کا حکم عام ہے اور طلاق واقع ہو جائے گی۔امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر آدمی نے متعین طور پر یہ بات کہی ہو کہ اگر میں نے فلاں قبیلے کی عورت یا فلاں آدمی کی بیٹی سے نکاح کیا تو
[1] صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان انہ سبحانہ وتعالی لم یکلف الا ما یطاق،حدیث:126۔