کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 549
بہتر ہے،اور اگر مصلحت ہو تو اسے رکھ بھی سکتا ہے جیسے کہ اوپر کی حدیث میں آیا ہے۔یہ نہیں ہے کہ اسے اپنے پاس رکھے بھی اور مارے بھی۔اگر رکھے تو اس شرط سے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرے۔اگر کسی وقت مارنے کی ضرورت پڑے بھی تو شرعی انداز میں مار بھی سکتے ہیں،جیسے کہ قرآن حکیم میں ہے: وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ (النساء:4؍34) "اور وہ عورتیں جن کے متعلق تمہیں اندیشہ ہو کہ وہ سرکشی (اور بد خوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) انہیں سمجھاؤ اور (اگر نہ سمجھیں تو) بستروں سے علیحدہ کر دو،اور (اس پر بھی وہ اپنی اصلاح نہ کریں تو) ان کو سزا دو۔" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(واضربوهن ضربا غير مبرح) "انہیں سزا دو،مگر سخت نہ ہو۔"[1] مقصد یہ ہے تادیب ہونی چاہیے انتقام نہیں۔(محمد بن عبدالمقصود) سوال:ایک عورت ایک مدت سے شادی شدہ ہے اور بچے نہیں ہوئے۔طبی ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ کمی شوہر میں ہے،اور ان میں اولاد ہونا محال ہے،تو کیا اس صورت میں عورت کو طلاق طلب کرنے کا حق ہے؟ جواب:اگر میڈیکل ٹیسٹ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ صرف شوہر ہی ولادت کی صلاحیت سے محروم ہے،تو عورت کو طلاق طلب کرنے کا حق حاصل ہے۔اگر وہ طلاق دے دے تو بہتر ورنہ قاضی اس کا نکاح فسخ کر سکتا ہے۔وجہ یہ ہے کہ عورت کو بھی اولاد حاصل کرنے کا حق ہے،اور بہت سی عورتیں صرف اولاد ہی کی خاطر شادی کرتی ہیں۔لہذا اگر شوہر کے متعلق معلوم ہوا کہ صرف وہی عقیم ہے تو عورت کو مطالبۂ طلاق یا فسخ کا حق حاصل ہے۔اہل علم کے نزدیک یہی قول راجح ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:اگر باپ اپنے بیٹے کو حکم دے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو،تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟ ذرا تفصیل سے واضح فرمایا جائے۔ جواب:اگر باپ اپنے بیٹے سے مطالبہ کرے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو،تو یہ بات دو حالتوں سے خالی نہیں: پہلی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ باپ کو چاہیے کہ وہ شرعی سبب بیان کرے جو اسے طلاق دینے اور اپنے سے جدا کر دینے کا تقاضا کرتا ہو۔مثلا واضح کرے کہ یہ اپنے اخلاق و عادات میں مشکوک ہے،مثلا اجنبیوں سے کھلم کھلا باتیں کرتی ہے یا ایسی مجلسوں میں شریک ہوتی ہے جو ناپسندیدہ ہوتی ہیں،وغیرہ۔اس صورت میں بیٹے کو چاہیے کہ اپنے باپ کا حکم مان لے اور اسے طلاق دے دے۔کیونکہ ماں باپ نے اپنی کسی خواہش نفس کے تحت اسے
[1] سنن الترمذی،کتاب الرضاع،باب حق المراۃعلی زوجھا،حدیث :1163وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب حق المراۃعلی زوجھا،حدیث:1851۔