کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 548
سوال:اگر کوئی مسلمان عورت اپنے شوہر کو یا اس کے دین کو گالی دے تو کیا اس سے اس کو طلاق ہو جاتی ہے؟ اس طرح کی بہت سی باتیں ہمارے علم میں آتی ہیں۔اللہ آپ کا بھلا کرے،ہماری اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیں۔ جواب:اگر بیوی اپنے شوہر کو گالی دے،تو اس میں اس کو طلاق نہیں ہو جاتی ہے۔اسے اللہ سے توبہ کرنی چاہیے۔ اور شوہر سے معافی مانگنی چاہیے ۔اگر وہ درگزر کر جائے اور معاف کر دے تو بہت بہتر اور اگر وہ جواب میں بطور قصاص گالی دے،اور اس سے زیادہ نہ دے تو جائز ہے۔اور اگر معاف کر دے تو یہ افضل ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ (البقرۃ:2؍237) "اور تمہارا معاف کر دینا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔" اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "اور اللہ تعالیٰ بندے کو اس کے معاف کرنے سے عزت میں اور بڑھا دیتا ہے۔"[1] اور اگر عورت مسلمان شوہر کے دین کو گالی دیتی ہے تو یہ کفر اکبر ہے۔ہم اللہ سے عافیت اور سلامتی کی دعا کرتے ہیں۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:میری بیوی بظاہر ایک دیندار خاتون ہے،مگر میرے ساتھ بدزبان ہے اور بعض اوقات نماز کے معاملے میں غفلت کر جاتی ہے۔اگر میں اسے اس بارے میں کچھ کہوں تو وہ اور زیادہ ڈھیل کرنے لگتی ہے۔ایسی صورت میں اس جیسی عورت کے ساتھ میں کیا سلوک کروں،جبکہ میرے اس سے بچے بھی ہیں؟ جواب:نماز کے بارے میں آپ کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کے غفلت کرنے پر اسے معاف کرو۔اگر وہ اس میں اصرار کرتی ہے تو اسے اپنے سے جدا کر دو،خواہ آپ کے اس سے کتنے ہی بچے کیوں نہ ہوں۔ اور رہا معاملہ آپ کے ساتھ زبان دراز ہونے کا،اور اس سے اللہ کی پناہ۔صحابہ میں سے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی کے متعلق بالکل یہی شکایت کی تھی،جیسے کہ مسند احمد اور ابوداؤد میں بسند صحیح آیا ہے کہ جناب لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول!میری بیوی ہے اور غلط زبان ہے۔آپ نے فرمایا:"اسے طلاق دے دو۔" لقیط رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،میں نے عرض کیا:میں اس کے ساتھ ایک وقت گزار چکا ہوں۔اور بچے بھی ہیں۔" آپ نے فرمایا:"اسے کہو (یعنی نصیحت کرو)،اگر اس میں خیر ہوئی تو وہ قبول کر لے گی۔اور اپنی بیوی کو ایسے مت مارو جیسے کہ اپنی لونڈی کو مارتے ہو۔" [2] امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:اس حدیث میں دلیل ہے کہ انسان اپنی زبان دراز بیوی کو طلاق دے دے تو
[1] سنن ابی داود،کتاب الطہارۃ،باب الاستنثار،حدیث :142۔مسند ابی داود الطیالسی،ص:191،حدیث:1341۔ [2] سنن ابی داود،کتاب الطہارۃ،باب الاستنثار،حدیث :142۔مسند ابی داود الطیالسی،ص:191،حدیث:1341۔