کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 547
بچاؤ ہے،اس کے دین اور جسمانی صحت کی سلامتی ہے اور تمہارے ساتھ عمدہ برتاؤ اور اچھا سلوک ہے۔اور قسم جو وہ اٹھا چکا ہے،اس میں اس پر کفارہ دینا واجب ہے،اور چاہیے کہ پہلے اللہ سے توبہ کرے اور عہد کرے کہ آئندہ ایسا نہیں کرے گا۔اور کفارہ اس کا یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا لباس دے یا کسی مومن غلام یا لونڈی کو ازاد کرے۔کھانے میں انہیں ایک وقت کا کھا دینا کافی ہے یا یہ ہے کہ ہر ایک کو آدھا صاع (تقریبا سوا کلو) کھانا دے جو علاقے میں معروف ہے۔ اور آپ کو (اے خاتون) ہماری یہ وصیت ہے کہ اس سے طلاق کا مطالبہ نہ کریں جبکہ وہ نماز پڑھتا ہو،اچھی سیرت کا مالک ہو اور سگریٹ نوشی بھی چھوڑ دے۔اور اگر وہ نافرمانی پر اڑا رہتا ہے تو آپ طلاق کا مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:میری ایک شخص سے شادی ہوئی ہے۔شادی کے بعد اس نے مجھ سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ میں اس کے بھائیوں سے چہرہ نہ چھپاؤں،ورنہ وہ مجھے طلاق دے دے گا۔تو میں اب کیا کروں اور مجھے طلاق دیے جانے کا اندیشہ ہے؟ جواب:آدمی کے لیے قطعا جائز نہیں ہے کہ اجنبیوں کے سامنے بے پردگی کے معاملے میں اس قدر وسیع الظرف بنے،اور بالخصوص اپنی بیوی کے متعلق اس قدر ضعیف اور متساہل ہونا کسی طرح بھی روا نہیں ہے کہ وہ اس کے بھائیوں یا چچاؤں یا بہنویوں یا عورت کے چچا زاد وغیرہ جو اس کے لیے غیر محرم ہیں،بے حجاب ہو۔یہ کام قطعا جائز نہیں ہے اور عورت کو اس بارے میں اپنے شوہر کی بات نہیں ماننی چاہیے ۔اطاعت صرف نیکی اور خیر میں ہے۔بلکہ اس پر واجب ہے کہ ان غیر محرموں سے پردہ کرے،خواہ وہ اسے طلاق ہی کیوں نہ دے دے۔اگر اس نے طلاق دے دی تو اللہ اسے اس آدمی سے بہتر کوئی اور شوہر دے دے گا،ان شاءاللہ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللّٰهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ (النساء:4؍130) "اور اگر یہ جدا ہو جائیں تو اللہ ہر ایک کو اپنی وسعت سے ایک دوسرے سے بے پروا کر دے گا۔" اور فرمایا: وَمَن يَتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا﴿٤﴾(الطلاق:65؍4) "اور جو کوئی اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا،وہ اس کے لیے اس کے معاملے میں آسانی پیدا کر دے گا۔" اور شوہر کے لیے قطعا جائز نہیں ہے کہ جب اس کی بیوی شرعی پردے کا اہتمام کرتی ہے اور ایسے انداز اپناتی ہے جو اس کی عصمت و عفت کے محافظ ہیں تو وہ اسے طلاق کی دھمکیاں دے۔اور ہم اللہ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔(عبدالعزیز بن باز)