کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 529
علمائے کرام کا شغار کی تعریف اور اس نکاح کی صحت کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔امام شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں لکھتے ہیں کہ شغار کی دو قسمیں ہیں: 1: ایک وہ جو احادیث میں بیان ہوئی ہے یعنی جانبین سے عصمتوں کا حق مہر سے خالی ہونا۔ 2: جانبین کے ولی ایک دوسرے سے یہ شرط رکھیں کہ اپنی ولیہ کا مجھ سے نکاح کر دو (میں تجھ سے کر دیتا ہوں)۔ کچھ علماء نے صرف پہلی صورت کا اعتبار کیا ہے،دوسری کا نہیں۔علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علماء کا اجماع ہے کہ نکاح شغار جائز نہیں لیکن (اگر ایسا کر لیا گیا ہو تو) اس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے۔ جمہور کہتے ہیں کہ ایسا نکاح باطل ہے۔اور امام مالک رحمہ اللہ سے ایک روایت یہ ہے کہ ایسی صورت میں زوجین میں اگر ملاپ نہ ہوا ہو تو اس کو فسخ کر دیا جائے،اور اگر ملاپ ہو گیا ہو تو فسخ نہ کیا جائے۔ابن منذر نے اوزاعی سے ایسے ہی نقل کیا ہے۔ علمائے احناف کہتے ہیں کہ شغار کی صورت ہو گئی ہو تو نکاح صحیح ہے مگر حق مہر ادا کرنا واجب ہے۔امام زہری،مکحول،ثوری،لیث،اسحاق،ابو ثور رحمہم اللہ اور ایک روایت امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایسے ہی ہے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ زاد المعاد میں لکھتے ہیں:فقہاء کا اس کے بارے میں اختلاف ہے،اور امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک شغار باطل ہے جس کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی اپنی ولیہ کا نکاح دوسرے آدمی سے اس شرط پر کر دے کہ دوسرا اپنی ولیہ کا نکاح اس سے کر دے اور ان کے درمیان کوئی حق مہر نہ ہو۔اگر وہ اس کے ساتھ مہر مقرر کر لیں تو امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ نکاح صحیح ہو جائے گا۔اما م خیرقی کہتے ہیں کہ خواہ مہر بھی مقرر کر لیں تو صحیح نہیں ہو گا۔جناب ابوالبرکات ابن تیمیہ وغیرہ اصحاب احمد بھی یہی کہتے ہیں کہ (نکاح صحیح نہیں) خواہ مہر مقرر کریں اور کہیں کہ ہر فریق دوسرے کا حق مہر معاف کر دے تو یہ صحیح نہیں ہو گا،اور اگر ایسی بات نہ کہیں تو صحیح ہو گا۔اور "المحرر" میں ہے:جس شخص نے اپنی ولیہ کا نکاح اس شرط سے کیا کہ دوسرا اپنی ولیہ اس کو نکاح کر دے گا،اور اس نے قبول کر لیا،اور ان کے درمیان مہر نہ ہوا تو یہ عقد صحیح نہیں ہو گا،اور اسے نکاح شغار کہا جاتا ہے۔اور اگر مہر مقرر کریں تو اس تعین سے یہ نکاح صحیح ہو گا۔اور کہا گیا ہے کہ اگر اس میں یوں کہہ دے کہ ہر عورت کی عصمت دوسری کے لیے مہر ہو گی تو یہ صحیح نہیں۔اگر ایسا نہیں کہا گیا تو صحیح ہو گا،اور یہی بات زیادہ صحیح ہے۔ چونکہ اس مسئلے میں اختلاف ہے اس لیے ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ جو صورت بلا اختلاف صریح شغار ہے یعنی کسی بھی عورت کے لیے مہر نہ ہو بلکہ ہر ایک کی عصمت دوسری کے بدلے میں ہو،یا مہر انتہائی قلیل برائے نام بطور حیلہ کے رکھا گیا ہو،تو ایسا نکاح باطل ہے،اسے فسخ کیا جائے گا،خواہ یہ دخول سے پہلے ہو یا اس کے بعد۔شریعت نے شغار کو حرام قرار دیا ہے اور اس میں ولی کی طرف سے غیر ذمہ داری کا اظہار ہے۔حالانکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ عورت کے لیے انتہائی خیر خواہی اور دنیا و آخرت کے معاملات میں اس کا بہترین معاون بنے۔