کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 523
دار ہو گا۔"[1] اور صحیح بخاری میں ہے،سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ کے ہاں انتہائی ناپسندیدہ ہیں،حرم میں الحاد کا مرتکب،اسلام میں جاہلیت کا عمل رائج کرنے والا اور ناحق خون کا مطالبہ کرنے والا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔"[2] اور اس قسم کی بات آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں بھی فرمائی تھی: " ألا وان كُلُّ شَيْءٍ من أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ هاتين مَوْضُوعٌ" "خبردار!جاہلیت کی تمام رسمیں میرے ان دو قدموں تلے روندی جا رہی ہیں۔" [3] الغرض شوہر اپنی دوسری شادی کرنے کے لیے کسی قسم کا عذر پیش کرنے کا محتاج نہیں ہے۔اور آپ،بحیثیت بیوی کے،اگر اپنے شوہر کے اس مطالبے کو رد بھی کر دیں تو آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔لیکن جو شوہر اپنی بیوی سے اجازت لے کر شادی کرنے کا خواہاں ہے وہ کبھی شادی نہیں کر سکے گا۔(محمد بن عبدالمقصود) سوال:میرا شوہر میرے ہاں اولاد نہ ہونے کے باعث دوسری شادی کرنا چاہتا ہے اور میں اس کے لیے کسی طرح راضی نہیں ہوں،اور وہ بھی صرف غیرت کی بنا پر۔تو کیا مجھے شرعی طور پر حق حاصل ہے کہ اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کر دوں تاکہ مجھے اس شوہر سے طلاق مل جائے؟ خیال رہے کہ شوہر اس وقت تک دوسری شادی نہیں کر سکتا ہے جب تک کہ پہلی بیوی اجازت نہ دے دے۔ جواب:مرد کے لیے ہر طرح سے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اجازت لیے بغیر چار تک شادیاں کر سکتا ہے۔اور وہ اس کا کسی طرح پابند نہیں ہے کہ پہلی بیوی سے رضا مندی لے۔اس خاتون کو اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا چاہیے کہ
[1] صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب یقل الرجال ویکثر النساء،حدیث:4933وسنن الترمذی،کتاب الفتن،باب اشراط الساعۃ،حدیث:2205۔ [2] صحیح بخاری،کتاب الدیات،باب مامن طلب دم امرءبغیر حق،حدیث:6688والسنن الکبری للبیھقی:8؍27،حدیث:15680۔ [3] صحیح مسلم،کتاب الحج،باب حجۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم،حدیث:1218وسنن الدارمی:2؍67،حدیث:1850۔) مقصد یہ ہے کہ ایک ہی بیوی پر کفایت کی مہم چلانا اور اس کا چرچا کرنا،اور اس کے بالمقابل دوسری،تیسری شادی کو مکروہ اور ناپسندیدہ جاننا یقیناً جاہلیت کا کام ہے اور اس سے ظاہری وباطنی فحاشی وبدکاری کے دروازے کھلتے ہیں جیساکہ نئی تہذیب کے آثار ثابت کررہے ہیں۔پہلی بیوی کی رضامندی حاصل کرنے کی پابندی بھی،شرعی امور میں داخل اور معقول کی قسم سے ہے اور معاشرے کی ایک بڑی تعداد کو شوہروں کے بغیر عفت وطہارت سے محروم رکھنے کا عمل ہے جو سراسر جہالت اور جاہلیت ہے جس کے تمام امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک قدموں تلے روند دیے ہیں۔(سعیدی)