کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 512
کے سابقہ شوہر سے ہوں یا بعد والے کسی شوہر سے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ (النساء:4؍23) "حرام کی گئیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری پالی ہوئی لڑکیاں،جو تمہاری گود میں تمہاری ان عورتوں سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو،پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو۔" ربیبہ بیوی کی بیٹی کو کہتے ہیں اور یہ آدمی اپنی اس بیوی کی بیٹیوں کے لیے محرم بن جاتا ہے جس سے اس کی مقاربت ہو چکی ہو۔اور وہ لڑکیاں اس آدمی سے (یعنی اپنی والدہ کے شوہر سے) پردہ نہیں کریں گی۔(مجلس افتاء) سوال:ایک عورت بیمار ہو گئی،اس کے لیے خون کی ضرورت پڑی،چنانچہ ایک اجنبی آدمی کا خون لے کر اسے لگایا گیا اور وہ شفایاب ہو گئی۔اب وہ شخص اس عورت سے شادی کا خواہش مند ہے۔تو کیا نکاح جائز یا نہیں؟ جواب:یہ جو بیان کیا گیا کہ ایک آدمی کا خون لے کر عورت کو لگایا گیا تو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ہے،یہ خون خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔حرمت،رضاعت (دودھ پلانے) سے ثابت ہوتی ہے۔اور یہی حکم آدمی کا ہے کہ اگر اسے کسی عورت کا خون لگایا جائے تو ان کے درمیان کوئی حرمت ثابت نہیں ہو گی۔الغرض یہ دونوں آپس میں شادی کر سکتے ہیں۔(مجلس افتاء) سوال:ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا،تو بوقت نکاح اس سے شرط کی گئی کہ وہ اس پر کسی اور عورت سے نکاح نہیں کرے گا نہ اسے اس کے گھر سے کہیں اور لے جائے گا۔اور اس عورت کی ایک بیٹی بھی تھی،اس کے متعلق شرط کی گئی ہے کہ یہ اپنی ماں کے پاس رہے گی۔تو اس نے یہ سب باتیں قبول کر لیں۔تو کیا اسے ان شرطوں کا پورا کرنا لازم ہے؟ اور اگر وہ ان میں سے کسی شرط کے خلاف کرے تو کیا بیوی کو فسخ کا حق حاصل ہے؟ جواب:ہاں،اس طرح کی شرطیں امام احمد،صحابہ،تابعین اور تبع تابعین وغیرہ کے ہاں معتبر ہیں۔مثلا حضرت عمر بن خطاب،عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما،قاضی شریح،اوزاعی اور امام مالک کے نزدیک یہ ہے کہ اگر وہ اس پر کسی اور عورت سے شادی کر لے یا لونڈی لے آئے تو عورت کا معاملہ اس کے اپنے ہاتھ ہو گا۔یہ شرط صحیح ہے اور اس کی خلاف ورزی پر وہ علیحدگی کا اختیار رکھتی ہے۔صحیح بخاری میں ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ تُوَفُّوا بِهِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ )