کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 510
بھی نہیں تھا۔جہاں میں کام کرتا تھا وہاں میرا ایک مسلمان ساتھی تھا،اور میں تعاون اور مدد کا انتہائی محتاج تھا۔چنانچہ اس نے میری انتہائی مدد کی حتی کہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔اس کی بیوی بھی مسلمان،دین دار اور قرآن کریم کی قاریہ تھی۔میری بیماری کے دوران میں اس نے میری بڑی خدمت کی۔جب میں شفایاب ہو گیا،الحمدللہ،تو میں نے چاہا کہ یہ عورت میری بہن بن جائے۔اور میری اپنی کوئی بہن نہیں ہے۔چنانچہ ہم نے اپنے درمیان قرآن مجید رکھا اور عہد کیا کہ یہ اللہ کی بندی میری بہن اور میرے لیے ہر طرح کے حالات کی محرم ہو گی۔اور ہمارا یہ عہد و پیمان اس کے شوہر کی رضا مندی اور اس کے بیٹے بیٹیوں کی موافقت اور ہمارے خاندان کی موافقت سے ہوا ہے،اور میں اسے اپنی حقیقی بہنوں کی طرح سمجھتا ہوں۔تو کیا میرے لیے جائز ہے کہ میں اس کا ہاتھ چھو سکوں؟ اور کیا جائز ہے کہ حج کے سفر میں میں اس کا محرم بن جاؤں؟ میرے اکثر عزیزوں کو اس معاہدے کی خبر ہے۔میں اس بارے میں شریعت اسلامی کی رو سے جواب چاہتا ہوں۔ جواب:آپ کے دوست نے جو آپ کی مدد کی اور اس کی بیوی نے جو آپ کی خدمت سر انجام دی،اس سب کے باوجود وہ عورت آپ کے لیے محرم نہیں بن سکتی ہے،وہ آپ کے لیے غیر اور اجنبی ہے۔محرم ہونے کا سبب یا تو نسب ہے یا رضاعت یا شرعی اصول و ضوابط کے تحت مصاہرت (تعلق نکاح)۔آپ کے لیے اسے اپنے ہاتھ وغیرہ سے چھونا یا سفر حج وغیرہ میں محرم بننا جائز نہیں ہے،بلکہ آپ کے لیے اس کے ساتھ علیحدگی اور خلوت میں ہونا بھی جائز نہیں ہے خواہ اس کا شوہر اور وہ اس کام کے لیے راضی ہوں۔آپ کا اس کے ساتھ اجانب اور غیر محرم اغیار والا ہے۔آپ کے ذمے ہے کہ اس کے لیے اور اس کے شوہر اور اقارب کے لیے جہاں تک ہو سکے حسن سلوک اور شکریے کا معاملہ کرو۔اس کی کئی صورتیں ہیں۔بدنی طور پر کسی کام میں ان سے تعاون کرنا،مال خرچ کرنا اور ہر طرح سے نصیحت اور خیرخواہی کرنا وغیرہ اعمال جو آپ اچھے انداز میں کر سکتے ہوں اور وہ اس کے محتاج اور ضرورت مند بھی ہوں۔(مجلس افتاء) سوال:ایک شخص نے ایک عورت سے شادی کی اور اب وہ چاہتا ہے کہ عورت کی بھانجی سے بھی نکاح کر لے،اور اس کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ ایسا کر سکتا ہے؟ جواب:سائل کی یہ بیوی اس لڑکی کی جس سے یہ نکاح کرنا چاہتا ہے خالہ ہے۔خالہ کے ہوتے ہوئے اس کی بھانجی سے نکاح جائز نہیں ہے۔حدیث میں ہے: (لا تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا وَلا عَلَى خَالَتِهَا) "کسی عورت کے ساتھ اس کی پھوپھی یا خالہ پر نکاح نہیں کیا جا سکتا۔"[1] (مجلس افتاء)
[1] صحیح مسلم،کتاب النکاح،باب تحریم الجمع بین المراۃ وعمتھا،حدیث:1408وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب الجمع بین المراۃ وعمتھا،حدیث:3292وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب لا تنکح المراۃ علی عمتھا،حدیث:1929۔