کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 508
سے آدمی کے لیے حرام ہو جائے گی۔اگرچہ وہ اسے عقد کے بعد ہی طلاق دے دے۔تو وہ لڑکی طلاق دینے والے کے باپ اور دادا کے لیے حرام ہو گی۔وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔اور کوئی عورت محض نکاح ہی سے اپنے شوہر کی "حلیلہ" ہونے کے معنی میں آ جاتی ہے۔ الغرض یہ نسب،رضاعت اور مصاہرت تین اسباب ہیں جن سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ نسب سے حرام ہونے والے رشتے سات ہیں،اور رضاعت سے حرام ہونے والے بھی بالکل یہی رشتے ہیں،کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ) "رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔"[1] اور مصاہرت (نکاح کے تعلق یا سسرالی تعلق) سے چار رشتے حرام ہوتے ہیں،جو یوں بیان ہوئے ہیں: 1: وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ ۔۔الخ "جن عورتوں سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہو تم ان سے نکاح نہ کرو۔" 2: وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ "تمہاری بیویوں کی مائیں (یعنی ساس)۔" 3: وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم "تمہاری ربیبائیں (یعنی وہ لڑکیاں جو عورت کے پہلے خاوند سے ہوں)۔" ان سے بھی آدمی نکاح نہیں کر سکتا،اس صورت میں کہ آدمی کا اس ربیبہ کی ماں سے صنفی ملاپ ہوا ہو۔ 4: وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ "اور تمہارے صلبی بیٹیوں کی بیویاں" یہ رشتے ابدی طور پر حرام ہیں۔ اور کچھ رشتے ایسے ہیں جو ایک وقت تک کے لیے حرام ہیں۔مثلا دو بہنوں کا جمع کرنا۔اور فرمایا: ' وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ ' یہ نہیں فرمایا کہ ' واخوات نسائكم ' کہ تمہاری بیویوں کی بہنیں تم پر حرام ہیں۔اگر کوئی آدمی کسی عورت کو اپنے سے علیحدہ کر دے اور پھر وہ کل طور پر اس سے جدا ہو جائے کہ اس کی عدت ختم ہو جائے تو جائز ہے کہ آدمی اس کی بہن سے نکاح کر لے۔ اسی طرح عورت اور اس کی پھوپھی اور عورت اور اس کی خالہ کو جمع کرنا بھی حرام ہے۔جیسے کہ حدیث میں
[1] صحیح بخاری،کتاب الشھادات،باب الشھادۃ علی الانساب والرضاع،حدیث:2502وصحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب تحریم الرضاعۃمن ماءالفحل،حدیث :1445وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب ما یحرم من الرجاع،حدیث:3301وسنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب یحرم من الرضاع مایحرم من النسب،حدیث:1937۔