کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 501
جواب:اگر واقعہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ذکر کیا گیا ہے تو اولا ان دونوں پر واجب ہے کہ اللہ کی طرف توبہ کریں،اس جرم سے باز آ جائیں اور اس بدکاری سے جو ان سے ہوئی اس پر ندامت کا اظہار کریں اور یہ عزم بھی کریں کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔اور کثرت سے اعمال خیر اپنائیں،امید ہے اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرما کر ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔قرآن مجید میں ہے: وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللّٰهِ إِلَـٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّٰهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا﴿٦٨﴾يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا﴿٦٩﴾إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴿٧٠﴾وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللّٰهِ مَتَابًا﴿٧١﴾(الفرقان:25؍68۔71) "اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے،اور جس جاندار کو مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریقے سے (یعنی شریعت کے حکم سے)،اور بدکاری نہیں کرتے،اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہو گا،قیامت کے دن اس کو دوگنا عذاب ہو گا اور ذلت و خواری سے ہمیشہ اس میں رہے گا۔مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کیے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا،اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔اور جو توبہ کرتا اور نیک عمل کرتا ہے تو بےشک وہ اللہ ہی کی طرف رجوع کرتا ہے۔" اور اگر یہ آدمی اس سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو واجب ہے کہ لڑکی کو ایک حیض سے استبراء کرائے۔اگر معلوم ہو کہ اسے حمل ہے تو اسے اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے تا آنکہ وضع حمل ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا یہی تقاضا ہے: "آپ نے منع فرمایا ہے کہ آدمی کسی دوسرے کی کھیتی کو پانی دے۔"[1] (مجلس افتاء) سوال:ایک آدمی نے ایک عورت سے شادی کی،جبکہ اسے معلوم تھا کہ وہ زنا سے حاملہ ہے؟ جواب:اس معاملے کا حکم یہ ہے کہ عورت کو رجم کیا جائے،کیونکہ اس کا زنا ثابت ہو چکا ہے اور وہ شادی شدہ ہے،اور شادی کرنے والے مرد کو تعزیر لگائی جائے،اور حق مہر سے محروم کر دیا جائے کہ اس نے علم ہونے کے باوجود اس سے ساز باز کر کے نکاح کیا۔اور جس شخص نے نکاح پڑھایا ہے اسے بھی تعزیر لگائی جائے۔(محمد بن ابراہیم)
[1] سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب فی وطی السبایا،حدیث:2158ومسند احمد بن حنبل:4؍108،حدیث:17031۔