کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 497
سوال:ایک عورت بدکاری کے نتیجے میں حاملہ ہو گئی ہے۔اب اس کا ولی اسی زانی سے اس کا نکار کر دینا چاہتا ہے جبکہ ابھی وضع حمل نہیں ہوا۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اس حمل کی کوئی حرمت و کراہت نہیں ہے۔تو کیا یہ جائز ہے کہ زانی اس عورت سے نکاح کر لے؟ جواب:اس آدمی کو جائز نہیں ہے کہ اس عورت سے نکاح کر سکے حتیٰ کہ وہ توبہ کرے اور وضع حمل سے اس کی عدت پوری ہو۔کیونکہ ان دونوں نطفوں میں (بصورت زنا اور بصورت نکاح) نجاست و طہارت اور طیب اور خبیث ہونے کا فرق ہے۔اور ان کا صنفی ملاپ بھی حلال اور حرام کے اعتبار سے مختلف ہے۔[1] (مجلس افتاء) سوال:ایک لڑکی کا سوال ہے،کہتی ہے کہ میری عمر بائیس سال ہے،میرا ایک نوجوان سے تعارف ہو گیا اور پھر ہمارے درمیان وہ کچھ ہو گیا جو میں زبان پر نہیں لا سکتی۔الغرض حمل ہوا جو پچاس دن کے بعد ضائع کرا دیا گیا،اور پھر میں نے توبہ کی ہے،خالص توبہ جو اللہ ہی جانتا ہے۔جو کچھ ہوا اس پر میں انتہائی نادم اور شرمندہ ہوں اور میرا پختہ عہد ہے کہ آئندہ کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گی۔میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ یہ نوجوان مجھ سے چاہتا
[1] وتو دوبارہ نکاح کیا جاوے۔اور اگر ناکح کو قبل نکاح کے اس امر کا علم ہو گیا تھا کہ ابھی عدت پوری نہیں ہوئی یا شک واقع ہوا تھا،مگر اس نے قصداتحقیقات نہیں کی اور نکاح کرلیا،تو اس کو توبہ کرنا چاہیے۔ادلہ ان کی ذیل میں لکھی جاتی ہیں: "وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ " "جب تک عدت پوری نہ ہوجائے نکاح نہ کرو۔" ((عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا قال:ایماامراۃنکحت نفسھا بغیر اذن ولیھا فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل فنکاحھا باطل فان دخل بھا فلھا المھر بما استحل من فرجھا۔)) (رواہ احمد والترمذی وابن ماجہ والدارمی) "جو عورت بغیر اپنے ولی کی اجازت کے اپنا نکاح کرائے اس کا نکاح باطل ہے،اس کا نکاح باطل ہے،اس کا نکاح باطل ہے۔اور اگر مرد اس سے صحبت کرچکا ہو تو اس کے عوض اس کا حق مہر ادا کرے۔"(ملاحظہ ہو:فتاویٰ نذیریہ،جلد دوم،ص:93۔392)کتاب النکاح،ناشر مکتبہ المعارف الاسلامیہ گوجرانوالہ۔  بلاشبہ کسی عفیف مرد یا عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس قسم کے کسی بدخصلت سے نکاح کا تعلق قائم کرے۔البتہ اس گناہ میں ملوث مردوعورت کو آپس میں جوڑدینے کی علمائے احناف نے رخصت دی ہے۔فتاویٰ نذیریہ،جلددوم،کتاب النکاح،ص:470میں اس انداز کے چند ایک سوال وجواب موجود ہیں۔ان میں سے ایک درج ذیل ہے: سوال:ایک عورت بیوہ کو ایک شخص کا حمل حرام کا ہے۔اب یہ عورت مذکورہ انہی ایام حمل میں اسی شخص کے ساتھ جس کا اس کو حمل حرام ہے نکاح کرسکتی ہے یانہیں؟اور اگر نکاح کرسکتی ہے تو بعد نکاح تاوضع حمل اپنے خاوند سے صحبت اور وطی وغیرہ کراسکتی ہے؟بموجب قرآن وحدیث کے جواب مرحمت فرمایاجائے۔ جواب:بیوہ مذکورہ ایام حمل میں اس شخص کے ساتھ جس سے اس کو حمل حرام کا ہے نکاح کرسکتی ہے کیونکہ یہ دونوں زانی ہیں۔اور زانیہ کا نکاح زانی سے جائز ہے۔اور یہ شخص بعد نکاح کے اس بیوہ منکوحہ کے ساتھ وطی بھی کرسکتا ہے،کیونکہ یہ حمل اس شخص کا ہے،استبرائے رحم کی کچھ حاجت نہیں ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔(سید محمد نذیر حسین)