کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 493
اور فرمایا: وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ (2؍233) "اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں۔" جب ان اڑھائی سالوں میں دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے تو حمل چھ ماہ کا ثابت ہوا۔تو ان آیات میں یہی جمع و تطبیق ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت (چھ ماہ) اور رضاعت کی کامل مدت دو سال ہے۔اگر بالفرض یہ شوہر اس سے انکار بھی کرتا (تو اس کی کوئی حیثیت نہ ہوتی) اور اس قصے میں تو اس نے اس کا اقرار کیا ہے اور اسے اپنا بیٹا کہا ہے۔بلکہ اگر کوئی شخص کسی مجہول النسب بچے کو اپنی طرف نسبت کرے اور دعویٰ کرے کہ "یہ میرا بیٹا ہے" تو باتفاق مسلمین اسے اس کی طرف منسوب کر دیا جائے گا،بشرطیکہ اس نسبت کا امکان موجود ہو۔اور اس مذکورہ معاملہ میں جب کسی دوسرے نے اس بچے کا باپ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ہے تو یہ شوہر اپنی قسم میں سچا ہے،وہ کسی طرح جھوٹا نہیں ہے۔واللہ اعلم۔(امام ابن تیمیہ) سوال:ایک شخص نے ایک مسلمان عورت سے شادی کی ہے جو پردے کی پابند نہیں ہے۔شوہر اسے شریعت کی پابندی بالخصوص پردے کے بارے میں کہتا رہتا ہے۔چنانچہ اس نے کچھ اصلاح کر لی ہے مثلا نماز پڑھنے لگی ہے،مگر پردے کے بارے میں تا حال بے پروا ہے۔اس کے بارے میں شوہر کا رویہ کیا ہونا چاہیے ؟ کیا اسے طلاق دے دے؟ اگر طلاق دینا واجب نہ کہا جائے تو کیا یہ اس کی بے پردگی کا ذمہ دار سمجھا جائے گا؟ جبکہ معروف قاعدہ یہ ہے کہ ہر انسان سے بس اس کے اپنے عملوں کا محاسبہ کیا جائے گا۔اور دوسری طرف یہ حدیث بھی ہے کہ:"تم میں سے ہر شخص راعی اور ذمہ دار ہے اور وہ اپنی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔"[1] اور دونوں نصوص میں کیا تطبیق ہو سکتی ہے؟ جواب:شوہر پر واجب ہے کہ بیوی کو پردے کا اہتمام کرنے کی تلقین کرتا رہے کیونکہ پردہ واجب ہے۔اسے چاہیے کہ اس کی ہر ممکن ہر طرح سے فہمائش کرے حتیٰ کہ وہ پردے کی پابندہو جائے۔اور بلاشبہ آدمی اپنے گھر والوں کا راعی اور ذمہ دار ہے اور بیوی بھی اس کی رعیت کا ایک فرد ہے۔جب انسان ان امور میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اور صبر سے کام لے گا تو یقینا اللہ تعالیٰ اس کی مشکل آسان بنا دے گا اور اس کی کوششوں میں برکت دے گا،جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: وَمَن يَتَّقِ اللّٰهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا﴿٤﴾(الطلاق:65؍4)
[1] صحیح بخاری،کتاب الجمعۃ،باب الجمعۃفی القری والمدن،حدیث:853۔صحیح مسلم،کتاب الامارات،باب فضیلۃالامام العادل وعقوبۃوالجائز،حدیث:1829۔ سنن الترمذی،کتاب الجھاد،باب الامام،حدیث:1705۔