کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 492
"اور جن لوگوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے،اور دنیا کی زندگی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے،ان سے کچھ کام نہ رکھو،ہاں اس قرآن کے ذریعے سے نصیحت کرتے رہو تاکہ (قیامت کے دن) کوئی اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ پڑے،(اس روز) اللہ کے سوا نہ تو کوئی دوست ہو گا اور نہ کوئی سفارشی۔" اور فرمایا: وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ﴿٦﴾(لقمان:31؍6) "اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو بےہودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ (لوگوں کو) بے سمجھے اللہ کی راہ سے گمراہ کرے،اور اس سے استہزاء کرے،یہی لوگ ہیں جن کو ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا۔" علاوہ ازیں گانے کی مذمت میں بہت زیادہ احادیث آئی ہیں اور عید میلاد یا سالگرہ کے اجتماعات میں کسی مسلمان مرد یا عورت کو شریک ہونا جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ بدعت ہیں۔ہاں اگر کوئی اس نیت سے جائے کہ اس عمل کی قباحت واضح کرے اور اللہ کا حکم بتائے تو جائز ہو سکتا ہے۔(مجلس افتاء) سوال:ایک آدمی نے لڑکی سے شادی کی جو کنواری اور بالغہ تھی،پھر اس کا ملاپ ہوا تو اس نے اسے کنواری ہی پایا،پھر ان کے ملاپ کو چھ ماہ گزرے تھے کہ لڑکی نے ایک بچے کو جنم دے دیا۔کیا یہ بچہ اس شوہر کی طرف منسوب ہو گا؟ جبکہ شوہر نے بھی (اپنی صداقت میں) طلاق کی قسم اٹھائی ہے اور کہا ہے کہ یہ میرا صلبی بچہ ہے۔اور کیا اس طرح سے طلاق ہو جاتی ہے؟ خیال رہے کہ بچہ بالکل کامل الخلقت پیدا ہوا ہے،بلکہ اب تو کئی سال کا ہو چکا ہے۔اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں،اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ جواب:اگر اس لڑکی اور اس کے شوہر کو ملاپ کیے چھ ماہ سے زیادہ گزر چکے تھے اور بچے کی ولادت ہوئی ہے تو یہ ملاپ خواہ ایک لحظہ ہی کے لیے تھا تو یہ بچہ اس شوہر ہی کی طرف منسوب ہو گا۔اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے۔اس طرح کا ایک واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی بیان کیا جاتا ہے۔اس واقعہ میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا تھا کہ اس مختصر مدت میں (چھ ماہ میں) ولادت کا امکان ہے۔ان کا استدلال اس آیت کریمہ سے تھا: وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا (الاحقاف:46؍15) "بچے کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھڑانا اڑھائی سال (تیس ماہ) میں ہوتا ہے۔"[1]
[1] مصنف عبد الرزاق:7؍349،حدیث:43443۔السنن الکبری للبیھقی:7؍442،حدیث:15326۔قرآن کریم کی مذکورہ آیت سے استدلال کرنے والے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تھے۔(عاصم)