کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 489
یہ دلیل ہے کہ وراثت کا انسان کی نسل پر اثر ہوتا ہے۔مگر اس کے بالمقابل آپ نے فرمایا ہے کہ: "عورت سے نکاح چار وجہ سے کیا جاتا ہے:مال،خاندانی شرافت،حسن و جمال یا دین۔تو کسی دیندار کے متعلق کامیابی حاصل کر،تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔" [1] الغرض کسی عورت کے لیے پیغام میں اس کا دین بنیاد ہونا چاہیے ۔عورت جس قدر دیندار ہو اور صاحب جمال ہو اسی قدر بہتر ہے،خواہ وہ خاندانی طور پر قرابت دار ہو یا غیروں میں سے۔کیونکہ دین والی اپنے شوہر کے مال اور اولاد کی زیادہ حفاظت کرنے والی ہو گی اور گھر کی تمام ضروریات پوری کرے گی اور اس سے شوہر کی نظر بھی بھٹکنے سے محفوظ رہے گی،اور وہ کسی اور کی طرف متوجہ نہیں ہو گا۔واللّٰه اعلم۔ (محمد بن صالح عثیمین) سوال:ایک عورت نے اپنے والد کی وراثت میں سے اپنا حصہ لینے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کرانے کے لیے ایک وکیل سے رابطہ کیا۔اس نے اس کام کے لیے اس قدر رقم کا مطالبہ کیا جو وہ ادا نہیں کر سکتی تھی۔پھر اس نے عورت سے کہا کہ اگر تم مجھ سے شادی کر لو تو ان اخراجات کے سلسلے میں میرا کوئی مطالبہ نہ ہو گا۔عورت شادی شدہ ہے،اس کے دو بچے ہیں،شوہر البتہ غیر ملک میں ہے اور اسے اور بچوں کا خرچ بھیجتا رہتا ہے۔بہرحال عورت نے پہلے شوہر سے فسخ نکاح کے لیے اس وکیل کو اپنا نمائندہ بنا دیا اور وہ سب کچھ ہو گیا جو اس نے چاہا،اور اس دوران میں پہلے شوہر سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا،حالانکہ عورت کے پاس اس کا پتہ وغیرہ سب موجود تھا۔اس نکاح کا کیا حکم ہے اور بچوں کے اخراجات اور تربیت کا کون ذمہ دار ہے؟ جواب:بلاشبہ یہ ایک فعل حرام،انتہائی قبیح جرم اور ایک باطل حیلہ ہے،جبکہ عورت پہلے ایک آدمی کی عصمت میں ہے اور وہ اسے اور اس کی اولاد کے لیے اخراجات بھی بھیجتا رہا ہے۔اور اس وکیل نے جو اس کا نکاح فسخ کرایا ہے کہ خود اس سے نکاح کر لے،حالانکہ پہلے شوہر سے رابطہ ممکن تھا،اور اس کا عذر دیکھا جانا چاہیے تھا کہ وہ گھر کیوں نہیں آ رہا،اور پھر اسے ایک مناسب مدت کی مہلت بھی دی جاتی۔الغرض اگر یہ فسخ حاکم شرعی کی طرف سے ہوا ہے اور اس نے اس مقدمہ کے تمام اسباب و جوانب ملاحظہ کیے ہیں اور فسخ کی وجوہ بھی دیکھی ہیں تو حاکم کے فسخ کرنے سے یہ نکاح فسخ ہو گیا ہے۔اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ سب حرام ہے اور عورت پہلے شوہر کی عصمت میں ہے اوردوسرے کا نکاح حرام ہے،اور اولاد اپنی والدہ کے ساتھ ہے۔اگر دوسرے آدمی نے ان کا انکار کیا تو یہ ذمہ داری عورت کے قرابت داروں یا بچوں کے والد کے قرابت داروں کی طرف منتقل ہو گی۔اگر باپ جلد ہی واپس آ جاتا ہے تو وہ حسب احوال اپنے حقوق کا مطالبہ کر سکتا ہے۔(عبداللہ بن الجبرین)
[1] صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب الاکفاءفی الدین،حدیث:4802،وصحیح مسلم،کتاب الرضاع،باب استحباب نکاح ذات الدین،حدیث:1466وسنن ابی داود،کتاب النکاح،باب مایومر بہ من تزویج ذات الدین،حدیث:2047وسنن النسائی،کتاب النکاح،باب کراھیۃتزویج الزنا،حدیث:3230۔