کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 482
کیا اس کا اس وجہ سے اس شادی سے انکار کرنا صحیح ہے؟ جواب:جب لڑکی کو علم ہے کہ اس کے گھر والوں نے اس پیغام دینے والے کا اس کے دین و اخلاق کی بنا پر اس کے لیے انتخاب کیا ہے تو اسے چاہیے کہ اس پر اپنی رضا مندی کا اظہار کر دے۔اور اس کا یہ کہنا کہ اس کے گھر والے غیبت وغیرہ کرتے رہتے ہیں تو اس کا تعلق ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اس کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ ان کے لیے ایک حرام کام ہے،جب اسے ایک صالح بر مل رہا ہے تو محض اس وجہ سے انکار کرنا درست نہیں ہے۔ان کی اس خرابی کی اصلاح کرنا ممکن ہے کہ انہیں پند و نصیحت کی جائے یا اللہ کا خوف یاد دلایا جائے،یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ان لوگوں کی ایسی مجالس میں نہ بیٹھے جن میں ایسی باتیں ہوتی ہیں۔اور یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ یہ ان کی ہر مجلس میں شرکت کرے جس میں غیبت وغیرہ ہوتی ہے۔ایسا نہ ہو کہ اس کمزوری کی وجہ سے جس کی اصلاح ممکن ہے،جیسے کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے،یہ دوشیزہ ایک صالح شوہر سے محروم ہو جائے جس کا اس کے گھر والوں نے انتخاب کیا ہے،بلکہ اسے اس خیر اور بھلائی کو حاصل کر لینا چاہیے یعنی اس صالح آدمی سے شادی کر لے۔واللہ اعلم۔[1] (صالح فوزان) سوال:ایک آدمی کو ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ اس میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہے،یا ممکن ہے بالکل ہی نہ ہو،البتہ صنفی ملاپ کے وہ ضرور لائق ہے۔تو کیا اسے چاہیے کہ اپنے متعلق اپنی مخطوبہ (منگیتر) کو بتا دے یا خاموش رہے اور معاملہ اللہ کی تقدیر پر چھوڑ دے؟ جواب:اس آدمی کو چاہیے کہ اپنی مخطوبہ (منگیتر) کو اپنی طبی صلاحیت کے متعلق آگاہ کر دے،کیونکہ طبی تجربات سے یہ حقیقت سامنے آ چکی ہے کہ بعض مردوں میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کمزور اور بعض میں ناپید ہوتی ہے،تو اس صورت حال کے پیش نظر ان میاں بیوی کی معاشرتی زندگی میں الجھاؤ پیدا ہو سکتا ہے،بالخصوص جب عورت میں اولاد کی فطری خواہش اور طلب بھی موجود ہو۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا"
[1] راقم مترجم عرض کرتا ہے کہ فضیلۃالشیخ رحمہ اللہ کا مشورہ یقیناً صائب،عمدہ اور قابل عمل ہے،مگر اس صورت میں جب اس جوڑے کے لیے اپنا علیحدہ گھر ہو۔اگر ایک مختصر گھر کے اندر مخلوط انداز میں رہائش ہو تو ان معاشرتی بیماریوں سے بچنا محال نہیں تو مشکل ضرور ہے۔بالخصوص جب گھر کے بڑے اور اہم افراد غیبت جیسے برے کام کے عادی ہوں تو اس گھر میں آنے والی نوعمر،نوخیز دوشیزہ کو ان سب لوگوں سے علیحدہ رہنا اور علیحدہ روش اختیار کرنا ایک بڑے امتحان میں پڑنے والی بات ہے۔ہاں اگر یہ لڑکی اپنی عمر اور اپنے علم کی بنیاد پر مؤثر ہوسکتی ہو تو الگ بات ہے۔شرعی اور اخلاقی اعتبار سے افضل اور اعلیٰ بات یہی ہے کہ ہر نئے تشکیل پانے والے جوڑے کے لیے ان کا اپنا علیحدہ گھر ہونا چاہیے۔(سعیدی)