کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 465
"مومن کی جان اس کے قرض کے ساتھ لٹکی (یا اٹکی) رہتی ہے،حتیٰ کہ اسے ادا کر دیا جائے۔" [1] حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اس کا بھائی فوت ہو گیا،اور تین سو درہم چھوڑ گیا،اس کے بال بچے بھی تھے،سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ یہ رقم اس کے بچوں پر خرچ کروں گا،مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: "إِنَّ أَخَاكَ مَحْبُوسٌ بِدَيْنِهِ،فَاقْضِ عَنْهُ " "تیرا بھائی اپنے قرضے میں پکڑا ہوا ہے،اسے ادا کرو۔" [2] کہتے ہیں کہ میں نے اس کا قرض ادا کر دیا،اور آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ سب قرضہ ادا کر دیا ہے،سوائے دو دیناروں کے،جن کی ایک عورت مدعی ہے،اور اس کے پاس کوئی گواہی نہیں ہے،تو آپ نے فرمایا:"اسے دے دے،وہ سچی ہے۔" اس حدیث کے بارے میں اہل علم کہتے ہیں کہ یا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قرضے کے بارے میں اطلاع تھی یا آپ کو بذریعہ وحی خبر دی گئی تھی کہ وہ عورت سچی ہے۔مگر (فقہی طور پر قاعدہ یہ ہے کہ) ہر وہ شخص جو کسی میت پر قرضے کا مدعی ہو اور گواہ پیش نہ کر سکے،تو اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھایا،اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے صبح کی نماز پڑھائی،اس سے فارغ ہوئے تو دریافت کیا،کیا یہاں آل فلاں کا کوئی آدمی ہے؟ صحابی خاموش رہے،اور ان کی یہ عادت تھی کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کسی کا پوچھتے تو وہ خاموش رہتے تھے،اس اندیشے سے کہ کہیں اس کے بارے میں کوئی آیت ہی نازل نہ ہو چکی ہو،حتیٰ کہ آپ تین بار دہراتے،تو تیسری بار میں ایک آدمی نے کہا:میں حاضر ہوں،اے اللہ کے رسول!وہ آدمی پیچھے سے اپنی چادر سنبھالتے ہوئے کھڑا ہوا۔آپ نے پوچھا:"کیا بات تھی کہ پہلی دو بار میں تو نے جواب نہیں دیا؟ میں نے تیرا نام خیر ہی سے پکارا ہے۔فلاں آدمی اپنے قرضے کی وجہ سے جنت سے روکا ہوا ہے،اگر چاہو تو اس کا فدیہ دے دو۔جاؤ اور اس کا قرض ادا کرو،حتیٰ کہ کوئی کسی قسم کا مطالبہ کرنے والا باقی نہ رہے،اب وہ پکڑا ہوا ہے۔"[3]
[1] سنن الترمذی،کتاب الجنائز،باب ماجاءعن النبی انہ قال نفس المومن معلقۃ بدینہ،حدیث:1078،1079۔سنن ابن ماجہ،کتاب الصدقات،باب التشدید فی الدین،حدیث:2413 والمستدرک للحاکم:2؍32،حدیث:2219۔السنن الکبری للبیھقی:4؍61،حدیث:6891۔ [2] مسند احمد بن حنبل:4؍136،حدیث:17266وسنن ابن ماجہ،کتاب الصدقات،باب اداءالدین عن المیت،حدیث:2433۔ [3] سنن النسائی،کتاب البیوع،باب التغلیظ فی الدین،حدیث:4685ومسند احمد بن حنبل:5؍20،حدیث:20244،والسنن الکبری للبیھقی:6؍49،حدیث:11049۔