کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 464
"اس قدر لے لیا کر جو معروف انداز میں تجھے اور تیرے بچوں کے لیے کافی ہو۔"[1] (محمد بن عبدالمقصود) سوال:ایک عورت کا شوہر ہاتھ کا بہت کھلا ہے،بیوی بچوں پر اس قدر خرچ کرتا ہے جو حد اسراف میں آتا ہے۔بیوی نے اسے بہت کہا کہ اپنا مال کسی منافع بخش منصوبے میں لگاؤ مگر اس نے انکار کر دیا۔تو کیا بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ گھر کے اخراجات میں سے کوئی تھوڑا بہت بچا کر کسی مناسب منافع بخش منصوبے میں لگا دے،جس کا شوہر کو علم نہ ہو۔کیونکہ مستقبل کے حالت کی کوئی خبر نہیں ہے؟ جواب:اس عورت کے لیے جائز ہے کہ مناسب رقم پس انداز کر سکتی ہے جبکہ شوہر اسراف کی حد تک خرچ کرنے والا ہے،اور یہ جمع شدہ اس شرط پر ہو گی کہ یہ شوہر ہی کی ملکیت رہے اور اس عورت کی اپنی ملکیت نہ ہو،اس نیت سے کہ اگر کسی وقت حالات میں تنگی آئے تو یہ رقم اسے پیش کر دے گی یا خود ہی گھر کی ضروریات میں لے گی یا یہ نیت ہو کہ اگر شوہر کی وفات ہو گئی تو یہ مال اس کی ملکیت رہے گا (اور اس کے کام آئے گا)۔[2] (محمد بن عبدالمقصود) سوال:ایک خاتون کا سوال ہے کہ اگر کسی کا شوہر وفات پا جائے اور اس پر قرضہ ہو اور بیوی اسے ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:بلاشبہ قرض کا مسئلہ اہم ترین مسائل میں سے ہے،حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت فی سبیل اللہ کے فضائل میں فرمایا ہے کہ یہ شہادت سب گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے مگر قرض کا کفارہ نہیں بنتی۔[3] مسند امام احمد اور سنن ابی داود میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،نبی علیہ السلام نے فرمایا: "نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ "
[1] صحیح بخاری،کتاب النفقات،باب اذالم ینفق الرجل فللمراۃان تاخذ بغیر ما یکفیھا وولدھا،حدیث:5049وسنن النسائی،کتاب آداب القضاۃ،باب قضاءالحاکم علی الغائب اذاعرفہ،حدیث:5420۔سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب ماللمراۃمن مال زوجھا،حدیث:2293ومسند احمد بن حنبل:6؍39،حدیث:24163۔ [2] وفات کی صورت میں واجب ہو گا کہ وہ اس مال کو ظاہر کرے اور وراثت میں تقسیم ہو۔ ورنہ حلال نہ ہو گا۔(مترجم،سعیدی) [3] صحیح بخاری،کتاب النفقات،باب اذالم ینفق الرجل فللمراۃان تاخذ بغیر علمہ ما یکفیھا وولدھا،حدیث:5049وسنن النسائی،کتاب آداب القضاۃ،باب قضاءالحاکم علی الغائب اذاعرفہ،حدیث:5420۔سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب ماللمراۃمن مال زوجھا،حدیث:2293ومسند احمد بن حنبل:6؍39،حدیث:24163۔