کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 463
"ان عورتوں کے ساتھ معروف (اور بھلے طریقے) کے ساتھ زندگی گزارو۔" نبی علیہ السلام کا بھی فرمان ہے:" وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا " ’’بلاشبہ تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے۔‘‘[1] اور اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کے ساتھ برا معاملہ کرتا ہے تو عورت کو چاہیے کہ اس کے مقابلے میں صبر کے ساتھ کام لے اور اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کرے،تاکہ اسے اس پر اجروثواب ملے اور امید ہے کہ اس طرح سے اللہ اس شوہر کو بھی راہ ہدایت سجھا دے گا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴿٣٤﴾(حم السجدہ:41؍34) "بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی۔برائی کا جواب اس طرح دو جو بہت اچھا ہو (اس طرح تم دیکھو گے) کہ تم اور وہ جن میں دشمنی تھی ایسے ہو جائیں گے کہ وہ گرم جوش دوست ہے۔" (مجلس افتاء) سوال:اس عورت کا کیا حکم ہے جو گھر کے اخراجات میں سے کچھ چھپا لے اور اپنی ذات پر خرچ کرے،یا گھر میں کوئی ایسی چیزیں خرید لائے جن کا شوہر کو علم نہ ہو؟ اور اگر وہ یہ رقم اپنے عزیزوں کو دیتی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:اگر بیوی اس طرح کی رقم چوری سے اپنے اقرباء کو دیتی ہے تو اگر وہ معمولی ہو کہ عرفا شوہر اس سے درگزر کرجاتا ہے یا اسے معلوم ہو کہ شوہر کو خبر ہو جائے تو وہ اس سے بگڑے گا نہیں،تو یہ مباح ہے۔اور اگر وہ اپنی ذات کے لیے لیتی ہے،اور شوہر ایسا ہے جو اس کے معاملے میں بخیل ہے،اس کو اتنا خرچ بھی نہیں دیتا جسے "نفقہ مثل" کہا جا سکے،حالانکہ شوہر اس کا پابند سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس طرح کا خرچ ادا کرے،تو بیوی کے لیے جائز ہے کہ اس کے علم میں لائے بغیر معروف حد تک لے سکتی ہے،تاکہ اپنی ذات پر "نفقہ مثل" کے انداز میں خرچ کر سکے۔ صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے کہا:"اے اللہ کے رسول!ابوسفیان ایک بخیل آدمی ہے،مجھے اتنا بھی نہیں دیتا جو مجھے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو،سوائے اس کے جو میں اس کو بتائے بغیر لے لوں؟" تو آپ نے فرمایا: "خُذِي مَا يَكْفِيكِ،وَوَلَدَكِ بِالْمَعْرُوفِ"
[1] صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب لزوجک علیک حقا،حدیث:4903۔صحیح مسلم،کتاب الصیام،باب النھی عن صوم الدھر لمن تضرر بہ او فوت بہ حقا اولم یفطر،حدیث:1159وسنن النسائی،کتاب الصیام،باب صوم یوم وافطار یوم،حدیث:2391ومسند احمد بن حنبل:2؍198،حدیث:6867۔