کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 450
سوال:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان:" إِنَّهُ لَيْسَ لِي أَنْ أَدْخُلَ بَيْتًا مُزَوَّقًا "[1] کے کیا معنی و مفہوم ہیں؟ اور کیا "تزویق" حرمت کے معنی میں ہے؟ جواب:"تزویق" کے معنی ہیں "مزین کرنا،زینت دینا" اور حدیث کا ترجمہ یہ ہے:"مجھے یہ لائق نہیں ہے کہ میں کسی زیب و زینت والے گھر میں داخل ہوں۔" اور اس میں حرمت کے معنی نہیں ہیں بلکہ تنزیہ کے معنی ہیں جو مقام نبوت و رسالت کے شایان شان ہے۔اور اس میں شبہ نہیں کہ مسلمان جس قدر درجات کمال میں بلند ہو گا اسی قدر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش پا کی پیروی کرنے والا ہو گا اور وہی راہ چلے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پسندیدہ تھی،اور اس سے بچے گا اور دور رہنے والا ہو گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسندیدہ اور مکروہ تھی۔(ناصر الدین الالبانی) سوال:وہ پارٹیاں اور اجتماعات جو ہوٹلوں میں کیے جاتے ہیں،ان کے بارے میں آنجناب کی کیا رائے ہے؟ جواب:ہوٹلوں (یا ہالوں) میں برپا کی جانے والی پارٹیوں اور اجتماعات میں بہت سے امور قابل مواخذہ ہیں اور کئی مکروہات دیکھنے میں آتی ہیں،مثلا سب سے بڑھ کر یہاں اسراف کیا جاتا ہے اور بہت سے اخراجات ایسے کیے جاتے ہیں جن کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔دوسرے یہاں اجتماع کرنے میں بہت سے تکلفات کرنے پڑتے ہیں اور نفری بڑھانے کے لیے ان ان لوگوں کو بلانا پڑتا ہے جن کی درحقیقت ضرورت نہیں ہوتی ہے۔تیسرے ان جگہوں پر بالعموم مردوں عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے،جو انتہائی معیوب اور غلط کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجلس کبار العلماء کی طرف سے ایک قرار داد جلالۃ الملک کے ہاں پیش کی گئی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ شادی کے اجتماعات اور دیگر پارٹیوں ہوٹلوں میں منعقد کرنے پر پابندی لگائی جائے۔چاہیے کہ لوگ اپنے ولیمے وغیرہ گھروں میں کیا کریں،اور ہوٹلوں کے تکلفات سے پرہیز کریں۔کیونکہ ان مقامات پر ولیمے کرنے سے کئی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ایسے ہی شادی ہال وغیرہ ہیں،جو لوگ بڑی بھاری بھاری رقموں سے حاصل کرتے ہیں۔اور یہ قرارداد لوگوں سے خیرخواہی کے طور پر پیش کی گئی ہے۔کہ لوگ اعتدال پسندی کی طرف آئیں اور اسراف و تبذیر (فضول خرچی) سے پرہیز کریں،اور اس لیے کہ متوسط طبقہ کے لوگوں میں سے ایک متوسط آمدنی والا جب دیکھتا ہے کہ اس کا ایک قریبی اپنے ولیمے کے لیے ہوٹل یا ہال کا بندوبست کر رہا ہے اور ایک بڑی تعداد کو دعوت دے رہا ہے تو اس کو بھی اس کی دیکھا دیکھی یہ کرنا پڑتا ہے اور پھر اسے بے پناہ اخراجات اور قرض کے زیر بار ہونا پڑتا ہے،یا پھر وہ اس بڑے خرچ کے ڈر سے شادی وغیرہ کو لیٹ کر دیتا ہے۔ اس لیے میں اپنے تمام مسلمان بھائیوں سے کہتا ہوں کہ اپنے یہ اجتماعات ہوٹلوں یا مہنگے مہنگے ہالوں میں منعقد کرنے سے اجتناب کریں یا پھر سستے قسم کے ہال حاصل کریں۔سب سے بہتر یہ ہے کہ پروگرام اپنے
[1] سنن ابن ماجہ،کتاب الاطعمۃ،باب اذارای الضیف منکرا رجع،حدیث:3360وسنن ابی داود،کتاب الاطعمۃ،باب اجابۃ الدعوۃ اذاحضرھا مکروہ،حدیث :3755 ومسند احمد بن حنبل:5؍221،حدیث:21976۔