کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 449
"اور تم میں وہ لوگ جن کی شادیاں نہیں ہوئیں ہیں ان کے نکاح کر دو اور اسی طرح اپنے غلام اور لونڈیوں کے بھی،اگر یہ فقیر ہوئے تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا،اور اللہ بڑی وسعت والا اور خوب جاننے والا ہے۔" اللہ عزوجل نے اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا ہے کہ مسلمان معاشرے میں جو لوگ نکاح کے بغیر ہوں (کنوارے،رنڈوے،طلاق یافتہ وغیرہ) حتیٰ کہ غلام اور لونڈیاں جو صالح ہوں،سب کو نکاح والی زندگی گزارنی چاہیے ۔اور فرمایا:اللہ کا فرمانا اور خبر دینا عین حق اور سچ ہے کہ اللہ کا فضل حاصل کرنے کے لیے ایک عظیم سبب نکاح بھی ہے،اور اس میں شوہروں اور اولیاء کو تسلی دی گئی ہے اور یقین دلایا گیا ہے کہ فقر اور تنگی کوئی ایسا سبب نہیں ہے جو نکاح و شادی کے لیے مانع یا رکاوٹ ہو،بلکہ یہ تو غنا اور رزق کا ایک بہت بڑا ذریعہ اور سبب ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:شادیوں کے موقع پر دلہنوں کے لیے تیار کیے جانے والے ان خاص لہنگوں یا غراروں کا کیا حکم ہے جو اس قدر لمبے ہوتے ہیں کہ یہ ان کے پیچھے گھسٹتے جاتے ہیں،اور بعض اوقات تو یہ تین تین میٹر لمبے ہوتے ہیں؟ اور ایسے ہی وہ رقمیں جو شادی اور رخصتی کے مواقع پر گانے بجانے والیوں کو دی جاتی ہیں،ان کا کیا حکم ہے؟ جواب:عورت کے لباس کے متعلق سنت یہ ہے کہ وہ پردے اور پاؤں چھپانے کی غرض سے اپنا کپڑا ایک ہاتھ تک لمبا رکھ سکتی ہے،اس سے زیادہ نہ کرے۔اس سے زیادہ لٹکانا خواہ وہ دلہن کے لیے ہو یا کسی دوسری کے لیے غلط اور ناجائز ہے۔اور قیمتی کپڑوں میں اپنا مال ناحق خرچ کرتا ہے۔چاہیے کہ لباس میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کی جائے۔یہ قطعا ناروا ہے کہ بلاوجہ ان کپڑوں پر مینا کاری کی جائے اور ڈھیروں مال غلط طرح سے بہا دیا جائے جس کا امت کو دین و دنیا میں کوئی فائدہ نہیں۔ اور گانے بجانے والی عورتیں انہیں بڑی بڑی رقمیں پیش کر کے لانا قطعا جائز نہیں ہے۔لیکن عمومی طور پر اگر کوئی عورت گائے کہ نکاح کا اعلان ہو،خوشی کا اظہار ہو،دف بجائے تو یہ جائزہے،بلکہ مستحب ہے،بشرطیکہ حدود شریعت میں ہو،کسی شر اور فتنے کا باعث نہ ہو،اور یہ ہو بھی صرف عورتوں کے درمیان،اور چاہیے کہ تھوڑے وقت کے لیے ہو،یہ نہ ہو کہ ساری ساری رات اسی کام میں گزر جائے،آواز بھی اونچی نہیں ہونی چاہیے ۔الغرض ایسے گیت جن میں دولہا،دلہن اور ان کے گھر والوں کی مدح وغیرہ کی اچھی باتیں ہوں،اور ان شرطوں کے ساتھ جن کا اوپر ذکر ہوا ہے،تو کوئی حرج نہیں ہے۔جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے دور میں ہوتا تھا۔ لیکن اس کام کے لیے باقاعدہ گانے والیوں کو بلانا اور انہیں بڑی بڑی رقمیں دینا،ایک غلط اور ناجائز کام ہے۔اسی طرح اونچی اونچی آوازوں سے لوگوں کو اذیت دینا،ساری ساری رات جاگنا،حتیٰ کہ فجر کی نماز بھی ضائع ہو جائے،ایسا غلط اور برا کام ہے کہ اس کا چھوڑ دینا واجب ہے۔(عبدالعزیز بن باز)