کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 445
بنا لے،اور جو کوئی کسی کو کافر کہے یا اللہ کا دشمن کہے (اور وہ ایسا نہ ہو) تو یہ باتیں اس کہنے والے ہی پر لوٹ آتی ہیں۔" [1] ان احادیث میں ایسی باتوں پر انتہائی سخت تشدید اور وعید آئی ہے،ان کا مرتکب اس لائق ہے کہ اسے سو کوڑے لگائے جائیں۔یا اسی طرح کی کوئی اور سزا دی جائے۔مزید یہ کہ اس عورت نے گواہوں کو دھوکہ دیا اور انہیں جھوٹی گواہی میں ملوث کیا اور پھر ایک باطل نکاح کیا۔جمہور علماء کہتے ہیں کہ بغیر ولی کے نکاح باطل ہوتا ہے،اور جو ایسا کرے اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کرتے ہوئے تعزیر لگاتے ہیں،اور امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا یہی مذہب ہے۔بلکہ ایک گروہ تو اس کو رجم کرنے کو بھی کہتا ہے۔اور حضرات مطلق طور پر بلا ولی نکاح جائز بتلاتے ہیں۔وہ بھی اس انداز سے نسب بدلنے اور جھوٹا ولی بنانے کو قطعا جائز نہیں کہتے ہیں۔تو ان باتوں پر بالاتفاق سزا ہے۔ اس عورت کو اپنے متعلق جھوٹ بولنے پر بھی سزا دی جائے،اور اس دعوے پر بھی کہ یہ شخص پہلے اس کا شوہر تھا اور اس نے طلاق دے دی تھی۔اور اس شوہر کو اور وہ آدمی جس نے دعویٰ کیا کہ وہ اس عورت کا بھائی ہے،انہیں بھی سزا دی جائے۔کہ اس کی شادی ہوئی تھی،پھر طلاق ہوئی،اور اب ولی حاضر نہیں ہے،چاہیے کہ ان سب کو سخت سزا دی جائے،بلکہ فقہائے کرام کی یہ صریح ہے کہ جھوٹے گواہ کا منہ کالا کیا جائے۔جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ ایسے ہی کیا کرتے تھے،اس اشارہ کے تحت کہ جھوٹے کا منہ کالا ہوتا ہے۔اور یہ کہ اسے سواری پر الٹے منہ بٹھایا جائے،اس مفہوم سے کہ اس جھوٹے گواہ نے بات بدلی ہے،اور پھر شہر میں گھمایا جائے تاکہ اس کی شہرت ہو کہ یہ جھوٹا گواہ ہے۔ ان کو تعزیر لگانا کسی خاص حاکم سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ولی امر میں سے جو بھی مسئول اور ذمہ دار ہو اور یہ کام کر سکتا ہو،حاکم محتسب وغیرہ کوئی بھی یہ کام کر سکتا ہے۔ اور اس قسم کے حالات میں جب کہ عورتوں میں فتنہ و فساد بہت زیادہ ہو رہا ہے یہ سزائیں دینا بہت ضروری ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگ جب کوئی برائی دیکھیں اور پھر اس کی اصلاح نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے سزا ان سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔"[2] (امام ابن تیمیہ)
[1] صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان حال ایمان من رغب عن ابیہ وھو یعلم،حدیث:61۔مسند احمد بن حنبل:5؍166،حدیث:21503۔السنن الکبری للبیھقی:7؍407،حدیث:15112۔ [2] سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن،باب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر،حدیث:4005مسند احمد بن حنبل:1؍2،حدیث:1،مسند ابی یعلی:1؍119،حدیث:131۔