کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 443
کے ساتھ مدارات سے کام لے اور جہاں تک ہو سکے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کرے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:جب نکاح کے سب شروط مکمل ہوں،سوائے اس کے کہ ولی اور ہونے والا شوہر ایک دوسرے سے دور الگ الگ شہروں میں ہوں تو کیا ٹیلیفون پر عقد نکاح کیا جا سکتا ہے؟ جواب:اس بات کے پیش نظر کہ آج کل نکاح و شادی کے معاملات میں بہت زیادہ دھوکہ بازی ہونے لگی ہے اور دیکھا گیا ہے بعض لوگ دوسروں کی گفتگو کی نقالی بڑی مہارت سے ہو بہو کرنے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں،بلکہ بعض تو ایسے ماہر ہوتے ہیں کہ ایک پوری جماعت یعنی کئی کئی افراد کی آواز اور گفتگو اور ان کی مختلف زبانیں تک ایک ہی وقت میں ادا کر لیتے ہیں،پردے میں ہونے کی وجہ سے دوسری طرف والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ کئی لوگ ہیں،حالانکہ وہ صرف ایک ہی ہوتا ہے جو آوازیں بدل بدل کر باتیں کر رہا ہوتا ہے۔ اور شریعت اسلامیہ میں،دیگر معاملات کے مقابلے میں عصمتوں کے تحفظ میں بہت زیادہ احتیاط ملحوظ رکھی گئی ہے،لہذا مجلس افتاء یہ رائے رکھتی ہے کہ عقد نکاح کے ایجاب و قبول میں ٹیلیفون مکالمات (جو پردے میں ہوتے ہیں) پر اعتماد نہ کیا جائے،کیونکہ شریعت اسلامیہ میں عصمتوں کے تحفظ کے معاملہ میں بہت زیادہ احتیاط کا پہلو ملحوظ رکھا گیا ہے،تاکہ کوئی ہوا پرست اور دھوکے باز اس بہانے سے کوئی غلط فائدہ نہ اٹھا سکے۔(مجلس افتاء) سوال:ایک لڑکی اپنی شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہے،اس کا کوئی ولی نہیں ہے اور نہ ہی شہر میں کوئی قاضی یا جج ہے،تو کیا اس کام کے لیے حاکم شہر،قاضی یا مجسٹریٹ کا قائم مقام بن سکتا ہے؟ جواب:کسی عورت کے عقد نکاح کے لیے سب سے اہم تر اور اولیٰ اس کا باپ ہے،پھر دادا یا اس سے اوپر تک،پھر عورت کا بیٹا یا پوتا نیچے تک،پھر اس کا حقیقی بھائی،پھر اس کے بعد درجہ بدرجہ وہ عصبات ہیں جیسے کہ وراثت میں ان کی درجہ بندی ہے،پھر ان کے بعد سلطان ہے،اور کوئی حاکم شرعی (قاضی یا مجسٹریٹ) ہی سلطان کا نائب ہو سکتا ہے۔امیر جسے حاکم اداری کہتے ہیں،اس کی نیابت صرف اداری امور اور قاضی کے فیصلوں کی تنفیذ تک ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہے کہ امیر کسی عورت کا،جس کا کوئی ولی نہ ہو،ولی نہیں بن سکتا بلکہ یہ ذمہ داری قاضی یا مجسٹریٹ کی ہے۔اور ہمارے شہروں میں ایسا کوئی شہر نہیں ہے جہاں قاضی نہ ہو۔اگر اس میں نہ ہو تو لازما یہ آبادی کسی دوسرے شہر کے تابع ہو گی جس میں قاضی موجود ہے۔(مجلس افتاء) سوال:ایک عورت کا باپ،بھائی اور باپ کی طرف سے نکاح کے لیے وکیل بھی موجودہے،مگر وہ اپنا اور اپنے باپ کا نام بدل کر گواہ پیش کرتی ہے،اور دعویٰ کرتی ہے کہ جس آدمی نے مجھے طلاق دی تھی،وہ مجھ سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتا ہے،اور ایک اجنبی آدمی پیش کر دیتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ یہ میرا بھائی ہے،پھر اسی کے مطابق تحریر ہو جاتی ہے مگر پھر سب کچھ جو اس نے کیا ہے ظاہر ہو گیا اور قاضی کے سامنے بھی اس کا جھوٹ ثابت