کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 442
اگر یہ بھائی اپنے اس چچا زاد ہی کو تمام لوگوں کی رضامندی سے تجدید عقد کے لیے اپنا وکیل بنا دے تو مقصود حاصل ہو گیا اور رکاوٹ دور ہو گئی۔(محمد بن ابراہیم) سوال:ایک آدمی ایک دوشیزہ کے لیے نکاح کا پیغام دیتا ہے،مگر اس کا ولی اس لڑکی کو نکاح سے باز رکھنے کے لیے انکار کر دیتا ہے،اس بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟ جواب:اولیاء پر واجب ہے کہ جب انہیں ان کے زیر کفالت لڑکیوں کے ہم پلہ (کفو) پیغام نکاح دیں،اور لڑکیوں کا بھی ان کی طرف میلان ہو تو اس کام میں جلدی کیا کریں۔نبی علیہ السلام کا فرمان ہے:"جب تمہیں کوئی ایسا شخص پیغام دے جس کا دین و اخلاق پسندیدہ ہو تو اس سے شادی کر دو،اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں ایک بڑا فتنہ و فساد ہو گا۔"[1] اور لڑکیوں کو نکاح سے صرف اس وجہ سے باز رکھنا کہ وہ اپنے چچا زاد یا دوسروں کی طرف راغب نہیں ہیں،یا اس طمع میں کہ مال زیادہ ملے یا اس قسم کے دوسرے سبب ہوں،تو اللہ و رسول نے ان باتوں کو شریعت نہیں بنایا ہے۔بلکہ اولو الامر حکام و قضاۃ پر واجب ہے کہ اگر کہیں ایسے اولیاء کا پتہ چلے تو ان کا ہاتھ پکڑیں (اور ان کے اس حق ولایت سے انہیں محروم کر کے) ان کی بجائے حسب درجات دوسرے اولیاء کو اجازت دیں کہ وہ ان کے نکاح کریں تاکہ ظلم کا دروازہ بند ہو اور حق و انصاف کا بول بالا ہو اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو اس قسم کے اولیاء کی طرف سے ظلم اور رکاوٹوں کی وجہ سے حرام میں پڑتے ہیں ان کا تحفظ اور بچاؤ کیا جا سکے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:اس صورت حال کا کیا حکم ہے جب باپ اپنے بیٹے کی شادی کسی غیر صالحہ لڑکی سے کرنا چاہتا ہو؟ اور اگر بیٹا باپ کی بات ٹھکرا دے اور کہے کہ میری شادی کسی صالحہ سے کریں،تو کیا حکم ہے؟ جواب:باپ کے لیے جائز نہیں ہے کہ بیٹے کو اس کی ناپسندیدہ لڑکی سے شادی کے لیے مجبور کرے،خواہ یہ عیب دینی ہو یا اخلاقی۔کتنے ہی ماں باپ ہیں جنہیں اس طرح سے جبر کرنے پر پچھتانا پڑا ہے۔باپ اس وجہ سے جبر کرتا ہے کہ یہ میری بھتیجی ہے،اس لیے اس سے شادی کر لو،یا یہ تمہارے اپنے قبیلے کی ہے وغیرہ۔صرف اس وجہ سے بیٹے پر لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے باپ کی بات مانے اور نہ ہی باپ کو لائق ہے کہ بیٹے پر جبر کرے۔اور ایسے ہی اگر بیٹا کسی صالحہ لڑکی سے شادی کرنا چاہ رہا ہو اور باپ اس کے لیے رکاوٹ بنے تو بیٹے کو اس مسئلے میں اس کی اطاعت لازم نہیں ہے۔اگر ہر بات میں ہم باپ کی اطاعت کو لازم کر دیں حتیٰ کہ جن میں باپ کا کوئی ضرر نہیں ہے تو اس سے بہت سے مفاسد سامنے آئیں گے۔تاہم بیٹے کو بھی چاہیے کہ اپنے والد
[1] سنن الترمذی،کتاب النکاح،باب اذاجاءکم من ترضون دینہ فزوجوہ،حدیث:1084،1085۔سنن ابن ماجہ،کتاب النکاح،باب الاکفاء،حدیث:1967 والمستدرک للحاکم:2؍179،حدیث:2695۔