کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 441
جواب:آپ کا مکتوب ملاحظہ ہوا کہ ایک کنواری لڑکی جو گونگی بہری ہے،اس کا والد یا بھائی کوئی نہیں ہے،البتہ چچا ہیں،اس کے لیے ایک آدمی نے نکاح کا پیغام دیا تو اس کے چھوٹے چچا نے اس کا نکاح کر دیا جبکہ بڑا چچا بھی موجود ہے،اور آپ نے اس کے نکاح کے متعلق دریافت کیا ہے کہ آیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟ اگر معاملہ ایسے ہی ہے کہ اس لڑکی کا باپ یا بھائی موجود نہیں ہیں،یا بھتیجے بھی نہیں ہیں تو اس کے چھوٹے چچا نے جو اس کا نکاح کر دیا ہے صحیح ہے،خواہ بڑا چچا موجود ہی ہے،بشرطیکہ یہ چھوٹا چچا بالغ اور عادل ہو اور کسی کفو سے اس کا نکاح کیا ہو اور لڑکی کی رضامندی بھی لی گئی ہو،اولیاء جب متعدد ہوں اور ایک درجے میں ہوں تو کسی ایک کی طرف سے اپنی تولیہ کا نکاح کر دینا صحیح ہوتا ہے۔البتہ بڑی عمر والے کو ترجیح دینا صرف مستحب ہے۔(محمد بن ابراہیم) سوال:ایک یتیم لڑکی ہے،اس کا بھائی بارہ سال کا ہے،تو اس کے ماموں نے اس کا نکاح کر دیا ہے،یہ ماموں اس کا عصبہ[1] ابعد ہے،دوسرے رشتہ دار عصبہ موجود ہیں،مگر معلوم نہیں کہ کون زیادہ قریبی ہے،اس نکاح کا کیا حکم ہے؟ جواب:ماموں اس مقصد کے لیے ولی نہیں ہے اور نہ وہ بھائی جو ولایت سے قاصر ہو۔اس کے شرعی ولی قریب ترین عصبہ ہیں جو راشد یعنی ہر طرح سے اس کے خیر خواہ ہوں۔تو چاہیے کہ اگر وہ قرابت میں برابر ہوں تو یہ کسی ایک کو اپنے عقد کے لیے اجازت دے۔اور جیسے کہ آپ نے ذکر کیا کہ وہ ماموں لڑکی کا عصبہ ہے،اگر یہی سب سے قریبی بنتا ہو،یا اس ماموں کو بھی اس کے کسی اقرب عصبہ کا علم نہ ہو تو یہ عقد صحیح ہو گا۔اور اگر معلوم ہو کہ ماموں سے قریب تر عصبہ حاضر موجود ہے تو یہ عقد صحیح نہیں ہو گا،ضروری ہے کہ ان زوجین میں تفریق کی جائے،اور پھر اس اقرب عصبہ کی زیر ولایت لڑکی رضا سے عقد کی تجدید کی جائے۔(محمد بن ابراہیم) سوال:ایک لڑکی کے چچا زاد نے اس کا نکاح کر دیا ہے جبکہ لڑکی کا بھائی بعمر پندرہ سال موجود ہے،اور اس نے اس نکاح پر اعتراض بھی کیا ہے کہ وہ اس پر راضی نہیں،اور اس چچا زاد کے پاس نہ اس بھائی کی طرف سے نہ لڑکی کے والد کی طرف سے کوئی وکالت نامہ ہے؟ جواب:جب لڑکی کا حقیقی بھائی موجود ہے جس کی عمر پندرہ سال ہے اور وہ اچھی سمجھ بوجھ والا ہے،ان مسائل میں کفو اور مصالح کو سمجھتا ہے اور شہر کے اندر حاضر موجود بھی ہے،تو ولی وہی ہے۔اس طرح یہ نکاح ولی نہ ہونے کے باعث فاسد ہے۔ضروری ہے کہ ان زوجین میں تفریق کرائی جائے اگر وہ اکٹھے رہ رہے ہوں۔ورنہ بھائی کی ولایت میں نئے عقد کے بغیر ان کا ملاپ صحیح نہیں،بشرطیکہ اس بھائی میں ولی ہونے کی شرطیں موجود ہوں۔
[1] "عصبہ"سے یہاں وہ مرد رشتہ دار مراد ہے جس کے ساتھ رشتے میں کوئی عورت حائل نہ ہو،مثلاًبیٹا،پوتا،باپ دادا،چچا وغیرہ اس کی کئی صورتیں ہیں جو علم وراثت میں ملاحظہ ہوں۔