کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 431
(8) كتاب النكاح خواتین اور نکاح و شادی کے احکام و مسائل سوال:ایک آدمی پہلے سے دیے گئے پیغام نکاح پر پیغام دیتا ہے،کیا یہ عمل جائز ہے؟ اور اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:الحمدللہ،صحیح احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،آپ نے فرمایا ہے کہ: "کسی آدمی کے لیے حلال نہیں ہے کہ اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام دے یا اپنے بھائی کے سودے پر سودا کرے۔"[1] اس لیے ائمہ اربعہ اور دیگر سبھی کے نزدیک متفقہ طور پر یہ کام حرام ہے۔البتہ اگر اس صورت میں نکاح ہو جائے تو اس بارے میں دو رائے ہیں:ایک قول یہ ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے اور یہ مروی ہے امام مالک رحمہ اللہ سے،اور ایک روایت امام احمد رحمہ اللہ سے بھی یہی ہے۔
[1] صحیح بخاری،کتاب البیوع،باب لایبیع علی بیع اخیہ ولا یسوم علی سوم اخیہ،حدیث:2033وصحیح مسلم،کتاب النکاح،باب تحریم الجمع بین المراۃ وعمتھا او خالتھا فی النکاح،حدیث:1498۔سنن ابی داود،کتاب النکاح،باب فی کراھیۃ ان یخطب الرجل علی خطبۃ اخیہ،حدیث:2081۔مسند احمد بن حنبل:2؍389،حدیث:10351۔ فتویٰ میں ذکر کردہ الفاظ مسند احمد کی روایت کے ہیں،البتہ اس کے ہم معنی الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ روایات دیگر کتب میں بھی موجود ہیں۔