کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 400
واجبات حج سوال:کیا منیٰ میں راتیں گزارنا واجب ہے یا سنت مؤکدہ؟ جواب:ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ منیٰ میں راتیں گزارنا واجب ہے۔کیونکہ ہم پاتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے عذر والوں کے علاوہ کسی کو بھی منیٰ سے باہر رہنے کی اجازت نہیں دی تھی،[1] مثلا جو مکہ میں پانی پلانے کی خدمت میں تھے یا جو اونٹ بکریاں چرانے والے تھے۔(ناصر الدین الالبانی ) سوال:ایک عورت نے اپنے حج کے تمام اعمال پورے کیے،سوائے جمرات کو کنکریاں مارنے کے،اس وجہ سے کہ اس کے پاس چھوٹا بچہ تھا،تو اس نے اس کے لیے دوسرے کو وکیل بنایا کہ اس کی طرف سے کنکریاں مار دے۔تو اس کا کیا حکم ہے جبکہ اس کا یہ حج فرضی ہے؟ جواب:اگر اس عورت کے ساتھ کوئی ایسا نہ تھا جو اس بچے کو سنبھال سکتا اور اس وجہ سے اس نے اپنا وکیل بنایا کہ اس کی طرف سے کنکریاں مارے،تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن اگر اس کے ساتھ کوئی ایسا تھا جو اس کے بچے کو سنبھال سکتا تھا تو اس کا وکیل بنانا جائز نہ تھا،خواہ یہ حج فرض تھا یا نفل۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:کیا چھوٹے بچوں پر بھی قربانی آتی ہے؟ جواب:جو شخص چاہتا ہے کہ اپنے چھوٹے بچے کو حج کروائے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ اس سے حج کے تمام احکام عمل میں لائے جیسے کہ وہ خود کر رہا ہے،اور ان میں سے ایک قربانی بھی ہے۔اگر اسے قربانی میسر نہیں ہے تو اس کے لیے وہی حکم ہے جو اس کی اپنی ذات کے لیے ہے۔یعنی اس کی طرف سے روزے رکھے۔اس مسئلے میں فہم و استنباط سے ہماری سمجھ میں یہی آیا ہے ۔۔واللہ اعلم۔(ناصر الدین الالبانی ) سوال:کیا رات کے وقت میں جمرات کو کنکریاں ماری جا سکتی ہیں؟ جواب:ہاں،طلوع فجر تک یہ ہو سکتا ہے۔(ناصر الدین الالبانی) سوال:ایک حاجی جس کے ساتھ کچھ جوان عورتیں بھی ہیں،وہ ازدحام اور بھیڑ سے بہت گھبراتی ہیں،اور حج میں ازدحام بے انتہا ہوتا ہے،عورتوں کے متعلق بالخصوص ڈر رہتا ہے کہ کہیں کوئی گر نہ جائے اور پھر اس کی موت واقع ہو جائے،تو کیا ایسی عورتوں کو رمی جمرات کی کوشش کرنی چاہیے یا وہ اپنے کسی قریبی کو دکیل بنا دیں؟ اور اگر وہ عید کے روز طلوع آفتاب سے پہلے جمرہ عقبہ کو خود رمی کریں اور باقی جمرات کے لیے وکیل بنائیں تو کیسا ہے؟ جواب:جو شخص جمرات کو کنکریاں مارنے سے عاجز ہو،اس کے لیے جائز ہے کہ کسی کو وکیل بنا دے جو اس کی
[1] سنن الترمذی،کتاب الحج،باب ماجاءفی الرخصۃ للرماۃان یرموا یوما ویدعوا یوما،حدیث:954،955۔سنن ابن ماجہ،کتاب المناسک،باب تاخیر رمی الجمار من عذر،حدیث:3036،3037۔