کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 398
مقصد یہ ہے کہ عبادت کی غرض سے ان مقامات کے علاوہ اور کہیں کا سفر نہ کیا جائے۔اس مقصد کے لیے صرف یہی تین مقامات ہی مخصوص ہیں۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:جو عورت بہت ضعیف ہو اس کے لیے مزدلفہ میں رات گزارنے کا کیا حکم ہے؟ جواب:سنت یہ ہے کہ آدمی مزدلفہ کی رات طلوع فجر تک مزدلفہ ہی میں گزارے۔وہاں اول وقت میں نماز فجر ادا کرے،پھر مشعر الحرام کے پاس وقوف کرے حتیٰ کہ فضا طلوع آفتاب سے پہلے خوب سفید ہو جائے۔لیکن اگر کوئی کمزور ہو جیسے کہ عورتیں اور چھوٹے بچے وغیرہ تو انہیں چاند غروب ہونے کے بعد جلدی روانہ ہو جانے کی رخصت ہے۔اور جو قوی اور صحت مند ہوں،انہیں طلوع فجر سے پہلے نماز فجر پڑھنے اور مشعر الحرام کے پاس وقوف کیے بغیر نہیں نکلنا چاہیے ۔اور وادی مزدلفہ ساری ہی مقام وقوف ہے،تاہم مقام "قزح" زیادہ افضل ہے،اور یہ وہاں ایک چھوٹی پہاڑی ہے،جہاں کہ آج کل لوگ وقوف کرتے ہیں،وہاں ایک عمارت بھی بنی ہوئی ہے۔اکثر فقہائے کرام نے خاص اسے ہی مشعر الحرام کا نام دیا ہے۔(شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ) سوال:ان عورتوں کا کیا حکم ہے جو ضعفاء کے ساتھ غروب قمر کے بعد مزدلفہ سے منیٰ کے لیے روانہ ہو جاتی ہیں اور یہاں آ کر بھیڑ سے بچنے کے لیے جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارتی ہیں؟ جواب:امام الموفق ابن قدامہ رحمہ اللہ المغنی میں فرماتے ہیں کہ ضعیفوں اور عورتوں کو پہلے روانہ کر دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان حضرات میں سے ہیں جو کمزوروں کو پہلے روانہ کر دیا کرتے تھے۔امام عطاء بن ابی رباح،ثوری،شافعی،ابوثور رحمہم اللہ اور اہل رائے یہی کہتے ہیں۔اور ہمیں اس مسئلے میں کسی کی مخالفت معلوم نہیں ہے۔اور اس میں ان کمزوروں کے ساتھ نرمی اور ازدحام کی مشقت کا ازالہ ہے اور نبی کریم علیہ السلام کے فعل کی اقتدا ہے۔[1] امام شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں کہتے ہیں: "دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رمی جمرہ کا وقت طلوع آفتاب کے بعد ہے۔اور عورتیں اور دیگر ضعفاء کے لیے رخصت ہے اور جائز ہے کہ سورج کے طلوع سے پہلے رمی کر لیں۔"[2] امام نووی رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ میں لکھتے ہیں کہ: "امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ عورتوں اور دیگر ضعفاء کو مزدلفہ سے آدھی رات کے بعد سورج نکلنے سے پہلے جلدی روانہ کر دیا جائے،تاکہ یہ لوگوں کے ازدحام سے پہلے جمرہ عقبہ کی رمی کر لیں۔"
[1] المغنی لابن قدامۃ:5؍286،طبع دار عالم الکتب،الریاض،الطبعۃالثالثۃ۔ [2] نیل الاوطار:5؍73،ادارہ القرآن والعلوم الاسلامیۃکراتشی۔