کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 393
کرتے تھے۔اگر تمتع افضل ہوتا تو یہ حضرات ضرور اس سے آگاہ ہوتے۔اس اشکال کا کیا جواب ہے؟ جواب:حج افراد جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ یہ دوسرے درجے میں ہے،ممکن ہے بعض حالات میں افضل ہو،لیکن ہم اسے کلی طور پر قران اور تمتع سے افضل کہہ دیں،اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔یہ حضرات دراصل اپنے مذہب کی تائید ہی کے لیے بحث کرتے ہیں،سنت کی تائید نہیں چاہتے۔حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا ہے،اور خوب واضح طور پر فرمایا ہے کہ اگرچہ میں نے قران کی ہے مگر افضل تمتع ہی ہے۔اس کی دلیل آپ علیہ السلام کا یہ فرمان ہے: (لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا سُقْتُ الْهَدْيَ،وَلَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً) "اگر مجھے اپنے ا س معاملے کا پہلے علم ہو جاتا جو بعد میں معلوم ہوا ہے تو میں قربانی ساتھ لے کر نہ آتا اور اسے میں عمرہ بنا لیتا۔" [1] اگر یہ بات صحیح ہو کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عام حالات کے تحت حج افراد کیا ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہے اور صحابہ کو جس کا حکم دیا ہے۔اور یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ۔ و شبك بين اصابعه) "عمرہ قیامت تک کے لیے حج میں داخل ہو چکا ہے۔اور آپ نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری کے اندر ڈال کر اشارہ فرمایا۔" [2] ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ افراد باطل ہے،لیکن قطعی طور پر کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نہیں ہے۔لہذا ہم ہر حاجی کو یہی نصیحت کرتے ہیں کہ وہ تمتع کرے اور بالضرور تمتع ہی کرے۔اگر دوسری نوع کا ارادہ ہو تو قران کرے۔جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا کہ ذوالحلیفہ سے قربانیاں ساتھ لی تھیں۔لیکن قربانی ساتھ لیے بغیر قران کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں درست نہیں ہے۔سب سے واضح فرمان تو یہی ہے جو اوپر بیان ہوا کہ:"عمرہ قیامت تک کے لیے حج میں داخل ہو چکا ہے۔۔۔" یہ ایک عام حکم تھا،اس طرح نہیں جیسے کہ
[1] سنن ابی داود،کتاب المناسک،باب صفۃحج النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم،حدیث:1905وسنن ابن ماجہ،کتاب المناسک،باب حجۃرسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم،حدیث:3074۔ [2] شیخ کے ذکر کردہ یہ الفاظ صحیح ابن حبان:9؍250حدیث:3943میں ہیں جبکہ یہ روایت دیگر کتب احادیث میں بھی بسند صحیح موجود ہے۔دیکھیے:صحیح مسلم،کتاب الحج،باب حجۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم،حدیث:1218۔سنن ابی داود،کتاب المناسک،باب فی افراد الحج،حدیث:1790وسنن الترمذی،کتاب الحج،باب العمرۃاواجبۃھی ام لا،حدیث:932۔