کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 392
واقعہ ہے اور یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں۔حج وداع کے موقعہ پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ (میقات مدینہ) میں پڑاؤ کیے ہوئے تھے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے ہاں ولادت ہوئی،تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھوایا کہ وہ کیا کریں؟ آپ نے فرمایا:غسل کرے اور کپڑے سے لنگوٹ کس لے اور احرام باندھے۔" [1] اور خون حیض کا حکم نفاس کا سا ہی ہے۔تو جو عورت حیض سے ہو اور اس کا گزر میقات سے ہو اور اس کی نیت حج یا عمرہ کی ہو،ہم اسے کہتے ہیں کہ وہ غسل کرے،لنگوٹ کس لے اور احرام کی نیت کرے اور ایسی عورت بحالت احرام جب مکہ پہنچے تو بیت اللہ میں نہ جائے اور جب تک پاک نہ ہو جائے طواف نہ کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا،جب کہ انہیں عمرہ کے دوران میں ایام شروع ہو گئے تھے: "تم وہی کچھ کرو جو حاجی کرتا ہے،صرف یہ ہے کہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا حتیٰ کہ پاک ہو جاؤ۔" [2] اور صحیح بخاری میں اس سے مزید ہے کہ: "وہ جب پاک ہو گئیں تو بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کی سعی کی۔"[3] اس سے معلوم ہوا کہ عورت نے حج و عمرہ کا احرام باندھا ہو اور وہ ایام سے ہو یا طواف سے پہلے اسے ایام شروع ہو جائیں تو وہ نہ طواف کرے اور نہ صفا و مروہ کی سعی،حتیٰ کہ پاک ہو اور غسل کر لے۔لیکن اگر عورت طواف کر چکی ہو اور طواف کے فورا ہی بعد اسے ایام شروع ہو جائیں تو اس صورت میں وہ صفا و مروہ کی سعی کر سکتی ہے،اور پھر وہ اپنے بال کاٹ کر حلال ہو جائے۔کیونکہ صفا مروہ کی سعی کے لیے طہارت شرط نہیں ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) حج کی اقسام[4] سوال:کچھ لوگ کہتے ہیں حج افراد،تمتع کی نسبت زیادہ افضل ہے،کیونکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما افراد ہی کیا
[1] سنن ابن ماجہ،کتاب المناسک،باب النفساءوالحائض تھل بالحج،حدیث:2013۔ [2] صحیح بخاری،کتاب الحیض،باب تقضی الحائض المناسک کلھا الا طواف بالبیت،حدیث:305وصحیح مسلم،کتاب الحج،باب بیان وجوہ الاحرام وانہ یجوز افراد الحج،حدیث:1211۔ [3] صحیح بخاری،کتاب الحج،باب کیف تھل الحائض والنفساءحدیث:1556۔ [4] حج کی تین صورتیں ہیں(1)حج افراد(2)حج تمتع(3)حج قیران۔ (1)۔۔۔افراد یہ ہے کہ آدمی صرف حج کی نیت سے احرام باندھے،اور پھر جتنے دن بھی گزریں احرام ہی میں رہے حتیٰ کہ دسویں تاریخ کو قربانی کرکے حلال ہو۔ (2)۔۔۔تمتع یہ ہے کہ حاجی پہلے عمرے کی نیت سے احرام باندھے،مکہ پہنچ کر طواف اور صفامروہ کی سعی کے بعد حجامت کراکے حلال ہو جائے،اور پھر بعد میں آٹھویں ذی الحج کو دوبارہ حج کا احرام باندھے اور حج کے اعمال پورے کرے۔یہ تمتع کہلاتا ہے۔ (3)۔۔۔اور قران یہ ہے کہ حاجی شروع ہی سے عمرے اور حج دونوں کی نیت کرکے ایک ہی احرام باندھے،پہلے عمرہ کرے اور حلال نہ ہو حتیٰ کہ حج کے اعمال سے فارغ ہو۔یہ قران کہلاتا ہے۔(سعیدی)