کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 369
تکلیف اسی توقف کا نتیجہ ہو۔اور اب رمضان آ رہا ہے،رمضان کے ایام میں یہ کیا کرے؟ یہ اور اس جیسی خواتین کو آپ کیا نصیحت فرمائیں گے؟ و جزاکم اللّٰہ خیرا جواب:اس جیسی خواتین جنہیں مسلسل خون آتا ہو (جسے کہ استحاضہ کہا جاتا ہے) اس کا حکم یہ ہے کہ ایسی عورت کو اس عارضہ کے شروع ہونے سے پہلے جو اس کی عادت تھی کہ جن ایام و تواریخ میں اسے حیض آتا تھا،اتنے دن نماز روزہ چھوڑ دے،مثلا اس کی عادت تھی کہ مہینے کے شروع میں چھ دن حیض ہوتا تھا،تو اسے اب بھی ہر مہینے اتنے دن توقف کرتے ہوئے نماز روزہ چھوڑ دینا چاہیے ۔جب یہ دن پورے ہو جائیں تو اب اسے غسل کر کے نماز روزہ شروع کر دینا چاہیے ۔اس طرح کی صورت میں عورتوں کے لیے نماز کی کیفیت یہ ہے کہ یہ اپنے زیریں جسم کو خوب دھو کر اور صاف کر کے لنگوٹ وغیرہ باندھ لیں،اور پھر وضو کریں،اور یہ وضو انہیں فرض نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد کرنا چاہیے ۔اگر فرض نمازوں کے اوقات کے علاوہ نفل پڑھنا چاہے تو بھی اسی طرح کرے۔اس مرض اور طہارت کی مشقت کے پیش نظر اسے جائز ہے کہ ظہر و عصر،اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر لیا کرے،تاکہ اسے یہ محنت دو نمازوں کے لیے ایک بار کرنی پڑے،اور فجر کے لیے ایک بار کرے گی۔یعنی پانچ بار کی بجائے اسے یہ عمل تین بار کرنا ہو گا۔ میں مسئلہ دوبارہ دہرا دوں کہ یہ عورت جب طہارت (وضو) کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ شرمگاہ کو دھو کر کسی کپڑے وغیرہ کا لنگوٹ باندھ لے،حتیٰ کہ خون کا نکلنا کم ہو جائے،پھر وضو کرے اور نماز پڑھے (ظہر عصر کو جمع کرتے ہوئے) ظہت کی چار رکعت اور عصر کی چار رکعت پڑھے،پھر مغرب کی تین اور عشاء کی چار رکعتیں پڑھے،اور فجر کی دو رکعتیں (فرض) پڑھے۔مقصد یہ ہے کہ یہ عورت نماز نہیں چھوڑ سکتی جیسے کہ بعض عوام سمجھتے ہیں،بلکہ دو نمازیں جمع کرے خواہ جمع تقدیم ہو یا جمع تاخیر۔اور اگر اسی وقت میں اس وضو کے ساتھ سنتیں اور نفل پڑھنا چاہے تو بھی جائز ہے،اس میں کوئی حرج نہیں۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:ایک عورت نے نذر مانی ہے کہ اگر اس کا حمل محفوظ رہا اور سلامتی کے ساتھ بچے کی ولادت ہوئی تو یہ ایک سال روزے رکھے گی۔چنانچہ اس کا حمل محفوظ رہا ہے اور بچے کی ولادت بھی خیریت سے ہو گئی ہے مگر عورت اب اپنی نذر کے معاملے میں عاجزی کا اظہار کر رہی ہے کہ سال بھر روزے رکھنا اس کے لیے بہت مشکل ہے۔ جواب:اس میں شک نہیں کہ کسی اطاعت کی نذر ماننا عبادت ہے،اور اللہ عزوجل نے ایسے اہل ایمان کی مدح فرمائی ہے: يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا﴿٧﴾(الدھر:76؍7) "یہ اہل ایمان وہ ہیں جو اپنی نذریں پوری کرتے اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی پھیل رہی ہو گی۔" اور احادیث میں بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: