کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 360
کھانا کھلا دیا جائے،کیونکہ اس نے صحت یابی کے بعد قضا دینے میں قصور کیا حتیٰ کہ دوسرا رمضان آ گیا اور پھر وفات پا گیا۔اور یہ مسئلہ کہ آیا کوئی شخص دوسرے کی طرف سے روزے رکھ سکتا ہے یا نہیں،اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔البتہ نذر کا روزہ ہو تو وہ اس میت کی طرف سے رکھا جائے،کیونکہ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے: "جو فوت ہو جائے اور اس کے ذمے روزہ ہو۔" [1] اور ایک روایت ہے: "نذر کا روزہ فوت ہو جانے والے کی طرف سے اس کا ولی رکھے۔" [2] (مجلس افتاء) سول:میری عمر پچاس سال ہے،میرے ذمے پندرہ دن کے روزے باقی ہیں،اور یہ ستائیس سال پہلے اس وقت چھوٹ گئے تھے جب میرے ہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی تھی،اور میں اس موقعہ پر ان کی قضا نہیں دے سکی۔تو کیا اب میں یہ قضا کر سکتی ہوں،اور کیا مجھ پر اس کا گناہ بھی ہو گا؟ براہ مہربانی میری رہنمائی فرمائیں۔جزاکم اللّٰہ خیرا جواب:آپ نے اپنے ان روزوں کی قضا میں جو تاخیر کی ہے اس پر اللہ سے توبہ کریں،اور آپ پر واجب ہے کہ ان دنوں کی قضا دیں،اور ساتھ ہی ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو آدھا صاع (سوا کلو) طعام بھی دیں،وہ طعام جو آپ کے ہاں معروف ہو۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:گزشتہ سالوں میں میں ایک بار اپنے ماہانہ ایام کے روزوں کی قضا نہیں دے سکی تھی،اور اب تک نہیں دے سکی جب کہ اس پر کئی سال گزر گئے ہیں۔اب میں اپنے ذمے روزوں کی قضا دینا چاہتی ہوں،مگر یاد نہیں کہ وہ دن کتنے تھے،تو میں کیا کروں؟ جواب:تمہارے ذمے تین باتیں ہیں: (اول):۔۔۔یہ کہ اس قدر زیادہ تاخیر کرنے پر اللہ سے توبہ کریں،اور اس غفلت اور سستی پر ندامت کا اظہار کریں اور عزم کریں کہ آئندہ ایسے نہیں کریں گی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَتُوبُوا إِلَى اللّٰهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴿٣١﴾(النور:24؍31) "اور تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو،اے مومنو!تاکہ فلاح پاؤ۔"
[1] صحیح بخاری،کتاب الصوم،باب من مات و علیہ صوم،حدیث:1952 و صحیح مسلم،کتاب الصیام،باب قضاء الصیام عن المیت،حدیث:1147 و سنن ابی داود،کتاب الایمان والنذور،باب ما جاء فیمن مات وعلیہ صیام،حدیث:3311 [2] نذر کا روزہ میت کی طرف سے اس کے ولی کو رکھنے کا حکم دیا۔ سنن ابی داود،کتاب الایمان والنذور،باب قضا ءالنذر عن المیت،حدیث:3308۔