کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 340
کفالت سے روگردانی کا ذریعہ اور بہانہ نہ بنا لیا جائے،کہ وہ پہلے قرض لے لیں اور پھر یہ ان کے (اپنی زکاۃ) سے قرض ادا کرتا پھرے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:ایک عورت نے ایک مرد سے بیس ہزار ریال حق مہر پر شادی کی،مگر شوہر نے حق مہر بیوی کے حوالے نہیں کیا،دس سال گزرنے کے بعد اب اس نے یہ مال دیا ہے،تو اب اس کی زکاۃ کیسے ادا ہو؟ جواب:اس بارے میں صحیح یہ ہے کہ اس مال میں ہر سال زکاۃ واجب ہے،بشرطیکہ شوہر مالدار اور غنی ہو،کیونکہ یہ مال شوہر کے پاس موجود (اور امانت) کے حکم میں ہے۔مگر اس کی ادائیگی تب ہی ہو گی جب یہ مبلغ اس کے ہاتھ میں آئے گا۔اور اگر وہ ہر سال اپنے دوسرے مال کے ساتھ اس قرض کی زکاۃ بھی ادا کر دیا کرے تو جائز ہے۔لیکن اگر شوہر ٹال مٹول کرنے والا یا تنگ دست ہو (اور ادا نہ کرتا ہو یا نہ کر سکتا ہو) تو پھر عورت کے ذمے اس کی کوئی زکاۃ نہیں ہے،خواہ دس سال بھی گزر جائیں،کیونکہ عورت اپنے اس مال سے عاجز ہے،اور پھر جب اسے وصول کر لے تو صرف اس آخری وصول کرنے والے سال کی زکاۃ ادا کرے گی۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:ایک آدمی شادی کرنا چاہتاہے،اور اس کے پاس اخراجات اس قدر نہیں ہیں کہ وہ یہ فریضہ نبھا سکے،تو کیا ایسے آدمی زکاۃ کے مال سے مدد کرنی جائز ہے کہ وہ اپنی شادی کر سکے؟ جواب:اگر کوئی انسان اپنی فقیری اور تنگ دستی کے باعث شادی نہ کر پا رہا ہو،تو جائز ہے کہ مال زکاۃ سے اس کی مدد کی جائے،کیونکہ نکاح شادی انسان کی لازمی ضروری میں سے ہے کہ آدمی اس ذریعے سے عفیف اور پاک دامن ہو سکتا ہے۔تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ کسی تنگ دست کی مال زکاۃ سے شادی کرا دی جائے،یا شادی کے اخراجات میں مدد کر دی جائے،کیونکہ یہ ان ضرورت مندوں میں سے ہے جن کے متعلق قرآن کریم نے صراحت سے فرمایا ہے کہ ان کو زکاۃ دی جائے۔(صالح بن فوزان) جواب:کیا ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم اپنی زکاۃ کچھ مستحقین کو دوسرے ملک میں بھیج دیں؟ کیونکہ میں یہاں مملکت عربیہ سعودیہ میں عارضی طور پر مقیم ہوں۔اس بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔اللہ آپ کو برکت دے۔ جواب:اگر مصلحت راجح ہو کہ دوسرے ملک میں فقر و فاقہ بہت زیادہ ہو یا اپنے مسلمان عزیز و اقارب بہت زیادہ محتاج ہوں تو مال زکاۃ کو دوسرے ملک یا شہر میں منتقل کرنا جائز ہے۔لیکن یہ کام محض محبت بڑھانے اور اپنی تعلق داری مضبوط بنانے کے لیے کرنا جبکہ ان سے زیادہ مستحق لوگ آپ کے اردگرد موجود ہوں،اور آپ انہیں جانتے بھی ہوں۔اور آپ انہیں محروم کر دیں تو یہ جائز نہیں ہے۔لیکن اگر ارد گرد کے لوگوں کے بارے میں مستحق زکاۃ ہونے میں شبہ ہو اور دوسرے ملک میں قرابت دار زیادہ مستحق ہوں،اور وہ اس لائق بھی ہوں کہ ان کا تعاون کیا جائے،اور وہ اس کے منتظر بھی رہتے ہوں تو ان کی طرف زکاۃ بھیج دینی زیادہ بہتر ہے،اور ایسے قرابت داروں پر صدقہ کرنا دگنا اجر کا باعث ہے،ایک صدقہ کا اور دوسرے صلہ رحمی کا۔(عبداللہ بن عبدالرحمٰن الجبرین)