کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 338
مہر کی زکاۃ ادا کرے۔اور یہی حکم قرض کا ہے۔یعنی کسی فقیر اور تنگدست کے ذمے ہو تو قرض خواہ اس کی زکاۃ واجب نہیں ہے،کیونکہ قرض خواہ اس مقروض سے اپنا قرضہ واپس لینے کی پوزیشن نہیں ہوتا ہے،اور فقیر کا حق واجب ہے کہ اسے مہلت دی جائے،اور ان حالات میں اس سے مطالبہ کرنا بھی جائز نہیں ہے،اور نہ ہی اس مقصد کے لیے اسے قید کرنا جائز ہے،بلکہ واجب ہے کہ جب قرض خواہ کو معلوم ہو کہ اس کا مقروض فقیر اور محتاج ہے تو اس سے درگزر کرے اور ادائیگی کا مطالبہ نہ کرے،اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اس صورت میں مقروض کو قید کیا جائے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:ہمارے ہاں گھر میں ایک نوکرانی ہے،کیا اس کے ذمے ہے کہ وہ صدقہ فطر ادا کرے؟ جواب:گھر میں کام کرنے والی خادمہ کے ذمہ واجب ہے کہ وہ اپنا صدقہ فطر دے،کیونکہ وہ مسلمانوں میں سے ہے،لیکن کیا اس کا یہ صدقہ خود اس کے ذمے ہے یا اس کے گھر والوں کے ذمے،جن کے ہاں وہ کام کرتی ہے تو اصل یہ ہے کہ یہ صدقہ خود اس کے اپنے ذمے ہے،لیکن اگر گھر والے اس کی طرف سے ادا کر دیں تو کوئی حرج نہیں۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:ماں باپ نے کچھ سونا بصورت زیورات اپنی بیٹیوں کے تصرف میں دیا ہوا ہے،کیا ان کا سونا ماں کے زیور کے ساتھ ملا کر اس سب کی زکاۃ ادا کی جائے یا ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ ہو گی؟ جواب:اگر کسی عورت کے پاس زیورات ہوں جو نصاب کو پہنچتے ہوں تو اس پر فرض ہے کہ اس کی زکاۃ ادا کرے،اور بیٹیوں کو جو کچھ سونا دیا ہو جو نصاب کو نہیں پہنچتا،تو ہم اس کو اس کے ساتھ جمع نہیں کریں گے،کہ اس سب کی زکاۃ دیں،بلکہ ہر بیٹی کی ملکیت مستقل ہے،اسے کسی دوسرے کے ساتھ جمع نہیں کیا جائے گا۔[1] (محمد بن صالح عثیمین) سوال:کیا ہم اپنی زکاۃ افغان مجاہدین کو دے سکتے ہیں؟ جواب:ہاں،جائز ہے کہ جس کے پاس زکاۃ کا مال ہو سونے،چاندی یا تجارتی اموال وغیرہ سے،وہ اسے ان افغان مجاہدین کو دے سکتا ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کر رہے ہیں۔کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ ان معروف مدوں میں
[1] راقم مترجم کے نزدیک اس میں تفصیل ہے۔ اگر یہ بیٹی یا بیٹیاں غیر شادی شدہ اپنے ماں باپ کے گھر میں ہوں،اور ان کو دیے گئے سونے پر ماں باپ کو کامل تصرف ہو جیسے کہ ہمارے ہاں بالعموم ہوتا ہے،مثلا کوئی تبادلہ کرنا یا حسب ضرورت فروخت وغیرہ کرنا،تو اس صورت میں ماں اور بیٹیوں کا سونا جمع کیا جائے گا اور پھر اس مجموعے میں سے زکاۃ ادا کی جائے گی،جیسے کہ مشترکہ زیور والوں کے لیے قاعدہ ہے کہ ۔۔ "(لَا يَجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلَا يُفَرِّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ)" ۔۔ لیکن اگر بیٹی اپنے گھر بار والی ہو،جس کے سونے پر ماں باپ کو بالعموم تصرف نہیں ہوتا ہے تو اس صورت میں ان کی ملکیت علیحدہ اور مستقل ہو گی اور ہر کوئی اپنے زیر ملکیت کی زکاۃ کا پابند ہے۔ ھذا ما عندی واللّٰه اعلم بالصواب(عمر فاروق السعیدی)