کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 334
ہیں،مگر اس کی زکاۃ ادا نہیں کی میں آپ سے امید کرتی ہوں کہ مجھے وضاحت سے بتائیں گے کہ اس کی زکاۃ کیسے دوں؟ جواب:اگر آپ کو زکاۃ واجب ہونے کا علم اس زیور کو فروخت کرنے کے بعد ہوا ہے،تو آپ پر کچھ نہیں ہے۔اگر آپ کو پہلے علم تھا تو اس رقم میں سے ایک سال کی زکاۃ پچیس ریال فی ہزار کے حساب سے ادا کر دیں،اور سابقہ سالوں کی زکاۃ بھی مارکیٹ میں ریٹ معلوم کر کے ادا کریں۔اور یہی واجب ہے کہ جو سکہ بازار میں رائج اور معروف ہے،اس کے مطابق اپنی زکاۃ ادا کریں اگر آپ کو زکاۃ کا یہ مسئلہ صرف آخری سال میں معلوم ہوا ہے تو پھر اسی آخری ایک سال کی زکاۃ ادا کر دیں۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:ایسے زیورات جو خالص سونے کے نہیں ہیں بلکہ نگینوں اور بعض قیمتی پتھروں سے مرقع ہیں،ان کی زکاۃ کیسے ہو گی؟ کیا ان نگینوں اور پتھروں کا سونے کے ساتھ وزن ہو گا،یا کیسے،کیونکہ سونے سے ان کو علیحدہ کرنا مشکل ہے؟ جواب:زکاۃ سونے ہی میں واجب ہے،اور قیمتی پتھر موتی،الماس وغیرہ ان میں زکاۃ نہیں ہے۔اور جو زیورات گلوبند وغیرہ سونے اور جواہرات وغیرہ کے ملے جلے ہوں تو اس عورت کو یا اس کے اولیاء کو خوب غور سے دیکھ بھال کر سونے کا اندازہ لگانا چاہیے یا تجربہ کار سناروں کو دکھا کر اندازہ لگوا لینا چاہیے۔ تو جو مقدار غالب گمان کے مطابق ہو،وہی معتبر ہے۔اگر وہ نصاب کو پہنچتی ہو تو زکاۃ دی جائے۔اور سونے کا نصاب بیس مثقال یعنی بانوے گرام ہے،اور ہر سال اس میں سے چالیسواں حصہ یعنی ہر ہزار میں سے پچیس ریال زکاۃ ادا کرنی چاہیے ۔اہل علم کے اقوال میں سے یہی قول صحیح تر ہے۔ اور اگر یہ زیور تجارت کے لیے ہو تو اس صورت میں اس میں جڑے قیمتی پتھروں کی قیمت بھی لگوائی جائے اور ان کی زکاۃ دی جائے جیسے کہ بقول جمہور علماء دیگر اموال تجارت کی زکاۃ دی جاتی ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:ایک عورت کے پاس زیورات ہیں اور نصاب کو پہنچتے ہیں،سعودی ریالوں میں وہ اس کی زکاۃ کیسے ادا کرے اور کتنی ادا کرے؟ جواب:اس عورت پر لازم ہے کہ ہر سال ماہر سناروں سے اپنے زیورات کی قیمت لگوائے،یا اس میں مستعمل قیراط وغیرہ کا حساب لگوائے،اور بازار کی حاضر قیمت کے اعتبار سے اس کی زکاۃ ادا کرے۔اس کی قطعا ضرورت نہیں کہ وہ اس کی بوقت خرید کی قیمت معلوم کرے۔بلکہ زکاۃ اسی پر ہو گی جو ادائیگی زکاۃ کے وقت حالیہ قیمت ہے۔(عبداللہ بن جبرین) سوال:کیا زیورات کی زکاۃ ان کی قیمت خرید کے حساب سے ہو گی،یا ادائیگی زکاۃ کے وقت اس کے وزن اور قیمت