کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 326
"جو اپنے رخسارے پیٹے یا دامن پھاڑے اور جاہلیت کی سی آواز بلند کرے وہ ہم میں سے نہیں۔" [1] اور یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صالقہ،حالقہ اور شقہ سے اپنی براءت کا اظہار کیا ہے۔[2] صالقہ سے مراد وہ عورت ہے جو کسی مصیبت میں اپنی آواز بلند کرے۔ حالقہ وہ ہے جو مصیبت میں اپنے بال منڈوا دے۔اور شاقہ وہ ہے جو مصیبت میں اپنے کپڑے پھاڑے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والی اور اسے غور سے سننے والی پر لعنت فرمائی ہے۔" [3] اے مسلمان بہن!تم پر واجب ہے کہ کسی مصیبت میں ان حرام کاموں سے دور رہو،صبر سے کام لیا کرو،اور اللہ سے اجروثواب کے امیدوار بنو،تاکہ یہ مصیبت تمہارے لیے گناہوں کا کفارہ بن جائے اور تمہارے اجروثواب میں اضافے کا باعث ہو۔ہاں اس قدر جائز ہے کہ اگر آواز بلند کیے بغیر رونا آئے تو کوئی حرج نہیں،اور کوئی ایسے حرام کام نہ کیے جائیں جن میں اللہ کی تقدیر اور فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہو۔اور اللہ ہی مدد دینے والا ہے۔(صالح فوزان) سوال:تعزیت کرنے کا کیا حکم ہے؟ اور کیا تعزیت کے لیے تقریبات کا مخصوص ہالوں وغیرہ میں اہتمام کرنا جائز ہے؟ہم امید کرتے ہیں کہ جواب مدلل ہوگا۔ جواب:کسی میت والوں کے ہاں تعزیت کے لیے جانا سنت ہے۔لیکن میرا خیال ہے کہ سائلہ کا مقصد ان ماتمی اور تعزیتی اجتماعات کے بارے میں پوچھنا ہے جو اس مقصد کے لیے اہتمام سے برپا کیے جاتے ہیں ۔[4] ورنہ محض تعزیت اور اہل میت کو تسلی و تشفی دینا،یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ (اہتمام کے ساتھ) تعزیتی اور ماتمی اجتماعات،ان سے علمائے اہل سنت قدیم ہوں یا جدید،سب ہی نے منع کیا ہے اور ان کو بدعت کہا ہے۔جو تفصیل چاہتا ہے اسے امام شافعی رحمہ اللہ کا قول دیکھنا چاہیے جس کا خلاصہ یہ
[1] صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب لیس منا من شق الجیوب،حدیث:1294 و صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب تحریم ضرب الخدود و شق الجیوب ۔۔۔ حدیث:285۔ صحیح مسلم میں لطم الخدود،کی جگہ ضرب الخدود ہے اور بخاری کی ایک روایت میں بھی ضرب الخدود ہے،حدیث:1298 [2] صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب ما ینھی عن الحلق عند المصیبۃ،حدیث:1296 و صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب تحریم ضرب الخدود و شق الجیوب،حدیث:287 [3] یہ روایت صحیح مسلم میں مجھے نہیں ملی،البتہ سنن ابی داود،میں موجود ہے۔ دیکھیے سنن ابی داود،کتاب الجنائز،باب فی النوح،حدیث:3128 [4] یعنی میت والے گھر میں اکٹھے ہو کر بیٹھے رہنا،دور و نزدیک سے لوگوں کا اجتماع در اجتماع آنا یا بلانا،پھر آنے والوں کے لیے کھانے وغیرہ کا اہتمام اور اسے خیرات کا نام دینا جو ہمارے ہاں تیجے،ساتویں،دسویں،بیسیوں یا چالیسویں وغیرہ کے نام سے معروف ہیں۔(سعیدی)